امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ دماغ اور دماغی سرگرمیوں پر تحقیق کرنے والے ماہر سائنس دانوں نے کہا ہے کہ سوچنے کے عمل کو زبان دے دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کی بدولت فالج سے متاثرہ افراد کی جسمانی بحالی میں بھی مدد مل سکے گی۔
Published: undefined
نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے زکرمین انسٹی ٹیوٹ سے منسلک سائنس دان اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہو جائے گا کہ انسانی دماغ کے سوچنے کے عمل کو بھی پڑھا جاسکے۔
Published: undefined
زکرمین انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ نیورو انجینیئرز کی ایک ٹیم کچھ عرصے سے ’قوت سامعہ کے محرک کی تعمیر نو auditory stimulus reconstruction کی ایک تکنیک پر کام کر رہی ہے۔ معتبر تحقیقی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس مخصوص تکنیک کے ذریعے انسانی دماغ کے ساتھ براہ راست مکالمات ممکن ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
بنیادی طور پر اس طریقہ کار سے دماغی سرگرمیوں کو لہروں یا سگنلز کے ذریعے مکالمے کی شکل دی جا سکے گی۔ بتایا گیا ہے کہ ابتدائی تجربات میں آڈیو کوالٹی زیادہ بہتر نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تکنیک میں بہتری آ سکے گی اور ایک دن سائنس دان انسان کے سوچنے کے عمل کو مکالمے کے طور پر پورا سن سکیں گے۔
Published: undefined
یہ ٹیکنالوجی بالخصوص فالج کے مریضوں یا مجموعی طور پر دماغی اعصابی نظام کی کارکردگی میں خلل سے متاثرہ افراد کے لیے ایک خوشخبری ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق فی الحال اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے زیر مطالعہ فاعل کا رضا مند ہونا ضروری ہے اور اس کے دماغ کے ساتھ مختلف تاریں لگائی جاتی ہیں، جو لہروں کو ڈی کوڈ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
Published: undefined
مستقبل میں یہی ٹیکنالوجی ترقی کرتے ہوئے اس قابل ہو جائے گی کہ فاعل کی رضا مندی اور بڑے بڑے آلات یا لمبی تاروں کے بغیر بھی انسانی دماغی سرگرمی کا جائزہ لیتے ہوئے متعلقہ فرد کی سوچ کو پڑھا جا سکے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined