نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ شہر میں دو مساجد پر ہوئے دہشت گرادنہ حملہ میں 49 نمازی شہید جبکہ 48 دیگر زخمی ہو گئے، اس حملہ کے بعد دنیا بھر سے تمام طرح کے رد عمل ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ یہ حملہ اس لئے انتہائی سنسنی خیز ثابت ہوا کیونکہ حملہ آوروں میں سے ایک دہشت گرد نے گولی باری کے پورے واقعہ کو سوشل میڈیا پر لائیو اسٹریم کیا تھا۔
اس حملہ کے کچھ ہی دیر بعد آسٹریلیائی ٹی وی پریزینٹر ولید علی ’دی پروجیکٹ ٹی وی‘ نامی ایک آسٹریلیائی نیوز چینل میں نظر آئے اور انہوں نے اس حملہ کے تعلق سے اپنے ناظرین سے بات چیت کی۔ ولید علی 40 سالہ آسٹریلیائی مصنف، ٹی وی اینکر اور یونیورسٹی لیکچرر ہیں، وہ میلبورن میں پیدا ہوئے اور ان کے والدین کا تعلق مصر سے ہے۔
Published: undefined
ولید علی نے کہا کہ دہشت گردانہ حملہ پر حیرت زدہ نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ حملہ کے بعد خود کو ٹوٹا ہوا اور بے جان محسوس کر رہے ہیں لیکن وہ حیرت زدہ نہیں ہیں۔ علی نے اپنی گفتگو کے دوران دنیا بھر میں ہوئے متعدد حملوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کنیڈا کی کیوبک مسجد میں ہوئی فائرنگ، لندن کے فنسبری پارک میں راہگیروں کو ٹرک سے روندنے، امریکہ کے پیٹسبرگ میں سناگاگ کے اندر یہودیوں کو قتل کرنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا بھر میں پیش آئے دہشت گردانہ واقعات ہیں، اب کرائسٹ چرچ حملہ جیسی خبروں پر انہیں حیرت نہیں ہوتی۔
ولید علی نے کرائسٹ چرچ گولی باری کو سلاٹر بائے اپوئنٹمنٹ (اپوئنٹمنٹ کے بعد قتل عام) قرار دیا، چونکہ حملہ آور نے حملہ کے لئے نماز کے وقت کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اس دوران اس منشور کے کچھ قابل تشویش نکات کو بھی پڑھا، جس کے حوالہ سے کہا جا رہا ہے کہ اسے حملہ آور کی طرف سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا ہے۔
علی نے آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کی طرف سے حملہ کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دینے پر ان کی ستائش تو کی لیکن دوسری طرف انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح آسٹریلیا کے کچھ سیاستدان ماضی میں مسلمانوں اور مہاجرین کے خلاف زہر فشانی کرتے رہے ہیں۔ ولید علی نے تقریباً 5 منٹ کے خطاب کے دوران بےحد شائستگی سے یہ سمجھایا کہ ’’دہشت گردی متاثرین کا انتخاب نہیں کرتی اس کی زد میں کوئی بھی آ سکتا ہے‘‘ اور دہشت گردی کے لئے تمام مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے کیوںکہ مسلمان بھی اس سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں جس طرح دیگر مذاہب کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز