پیرس سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی وزیر داخلہ کرسٹوف کاستانر اب ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں، جس کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، خاص طور پر ملکی پولس فورس کے اہلکاروں میں مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے رجحانات کا بروقت پتہ چلایا جا سکے گا۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
کاستانر نے ریڈیو 'فرانس انٹر‘ کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پولس فورس میں کسی بھی طرح کی انتہا پسندی کو آئندہ ایک خود کار طریقے سے اعلیٰ حکام کو رپورٹ کیا جائے۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
انہوں نے یہ بات پیرس ہی میں گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز کیے جانے والے ایک ایسے خونریز حملے کے تناظر میں کہی، جس میں پولس ہی کے ایک سویلین اہلکار نے چاقو سے حملے کر کے پیرس کے پولس ہیڈ کوارٹرز میں اپنے چار ساتھیوں کو قتل کر دیا تھا اور اس دوران وہ خود بھی موقع پر موجود ایک پولس اہلکار کی طرف سے فائرنگ میں مارا گیا تھا۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
فرانسیسی وزیر داخلہ نے آج پیر کے روز کہا، ''یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس واقعے میں فرانسیسی ریاست اپنے فرائض کی مکمل اور بھرپور ادائیگی میں ناکام رہی۔ تین اکتوبر کو جس مسلح پولس اہلکار نے چاقو سے حملہ کر کے چار پولس افسران کی جان لے لی، اس 45 سالہ ملزم کے بارے میں پولس کے ریکارڈ میں ایسی کوئی معلومات موجود ہی نہیں تھیں کہ وہ بنیاد پرست اور دہشت گردوں کا ہمدرد بن چکا تھا۔‘‘
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق، ''تین اکتوبر کو پیرس میں مجموعی طور پر پانچ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بنے والے اس واقعے سے متعلق ایک سچ یہ بھی ہے کہ ریاست کی کارکردگی ناقص رہی اور اس حملے کے دوران خود بھی مارے جانے والے حملہ آور سے متعلق پولس کو ایسی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی کہ اس کا رویہ مشکوک ہو چکا تھا، جس کی چھان بین ضروری تھی۔‘‘
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
پیرس میں اس خونریز حملے کے بارے میں ملکی اپوزیشن کا وزیر داخلہ کاستانر پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے اس حملے کے ملزم سے متعلق اصل حقائق کو اس حملے کے بعد کے چند گھنٹوں میں چھپانے کی کوشش کی تھی۔ وزیر داخلہ لیکن اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولس کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کا یہ سویلین اہلکار انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہو چکا تھا۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
خونریز دہشت گردانہ واقعات کی چھان بین کرنے والے فرانسیسی ماہرین کے مطابق تین اکتوبر کے حملے کا مرکزی ملزم نہ صرف اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا حامی بن چکا تھا بلکہ اس نے ان دہشت گردوں کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا تھا، جنہوں نے 2015ء میں فرانسیسی جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر پر ہلاکت خیز حملہ کیا تھا۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
فرانسیسی تفتیش کاروں کے مطابق اس حملے کے ملزم کا نام میکائل ہارپوں تھا، جو پیرس کے پولس ہیڈ کوارٹرز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر کے طور پر خدمات انجام دیتا تھا۔ تفتیشی ماہرین اب تک یہ پتہ بھی چلا چکے ہیں کہ ہارپوں انتہا پسند سلفی مسلمانوں کے ساتھ رابطوں میں تھا اور ان کے لیے ہمدردی محسوس کرتا تھا۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 2015ء میں جب جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر پر شدت پسند مسلمانوں نے خونریز حملے کیے تھے، تو میکائل ہارپوں نے 12 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے ان حملوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر اس کے بہت سے ساتھی کارکن حیران رہ گئے تھے لیکن اس واقعے کی متعلقہ پولس افسران نے اعلیٰ پولس اہلکاروں کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
مزید یہ کہ تین اکتوبر کے حملے سے قبل ہارپوں کی اس کی 33 سالہ بیوی کے ساتھ موبائل فون پر جو چیٹ ہوئی تھی، اس میں ان دونوں کے مابین 33 پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا۔ پھر ہارپوں نے یکدم یہ چیٹ ختم کر دی تھی اور اس نے اپنے بیوی کو جو آخری پیغام بھیجا تھا، اس میں اس نے صرف دو لفظ لکھے تھے، ''اللہ اکبر۔‘‘
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Oct 2019, 7:40 PM IST