وہائٹ ہاؤس کی جانب سے حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ صدر جوبائیڈن روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے ساتھ آنے والے مہینوں میں کسی تیسرے ملک میں چوٹی ملاقات کے خواہاں ہیں۔ اس سے دونوں حریف ممالک کے درمیان مصالحت کی امیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ شخصی دعوت دونوں قائدین کے درمیان ٹیلی فون پر ہوئی بات چیت کے دوران دی گئی جس میں شدید اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان موضوعات میں حال ہی میں یوکرین کے قریب روسی فوج کی تعداد میں اضافہ بھی شامل ہے۔ پوتین کے ساتھ بات چیت کے دوران بائیڈن نے یوکرین کی سالمیت اور علاقائی ہم آہنگی کی برقراری کے لئے اپنے عہد کا اعادہ کیا اور یوکرین کی سڑکوں پر روسی افواج کی تعیناتی پر تشویش کا اظہار کیا۔
Published: undefined
وہائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ امریکہ روسی اقدام کے جواب میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا جن میں انتخابات میں سائبر دخل اندازی بھی شامل ہے۔ یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی جب امریکی وزیر خارجہ انتونی بیلکن براسلز میں یوکرین اور بحرالکاہل معاہدہ تنظیم (ناٹو) کے اتحادی ممالک کے حکام سے ملاقات کر رہے تھے۔ ناٹو نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد پر اپنے فوجی جماؤ کو ختم کرے۔ روس کے اس اقدام کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑے تصادم کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے جو 2014 میں کریملن کی جانب سے یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے تھما ہوا سا تھا۔
Published: undefined
اسی دوران کریملن نے بھی اس بات کی توثیق کی ہے کہ دونوں قائدین کے درمیان ممکنہ چوٹی ملاقات کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے اور کہا کہ بائیڈن نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ دریں اثناء Prague اور Vienna نے اس ممکنہ ملاقات کی میزبانی کرنے کے لیے پیش کش کی ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ یوکرین کی سرحد پر روس کی جانب سے فوج جمع کرنے کو بین الاقوامی برادری نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی آئی تھی کہ امریکہ نے اپنے دو بحری جنگی جہازوں کو بحراسود کے لئے روانہ کر دیا تھے جسے بعد میں اس نے منسوخ کر دیا۔ روس کی وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں ایک وارننگ بھی جاری کی تھی۔
Published: undefined
یوکرین کی سرحد پر فوج کے اجتماع اور بڑھتے تناؤ کے درمیان مغربی سیاست دانوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ روس کا کوئی بھی قدم تناؤ کو مزید ہوا دے سکتا ہے اور انہوں نے صدر ولادیمیر پوتین پر فوج کو وہاں سے ہٹانے کے لئے دباؤ بنانا شروع کر دیا تھا۔ روس نے مغرب کے دباؤ میں آنے کے بجائے اس قدم کو یوروپ میں ناٹو کی مشقوں سے پیدا ہونے والے خطرہ کے جواب میں روس کی جانب سے اٹھایا گیا ایک حفاظتی قدم قرار دیا۔ مجموعی طور پر حالیہ اور ماضی کے واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب سیاسی حربے ہیں۔ امریکہ اور روس دونوں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس کھیل میں بائیڈن نے پہلی چال چلی ہے اور پوتین کو موقع فراہم کیا ہے۔
Published: undefined
روسی صدر کو بات چیت کی دعوت بائیڈن کے ماضی کے اقدامات اور بیانات کے بالکل برخلاف ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ قدم امریکہ کو دوبارہ ایک سُپر پاور بنانے کے اصولوں پر عمل پیرا بائیڈن کے سیاسی نظریات کے بھی خلاف ہے۔ یہ دعوت ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب کہ چند ہفتے پہلے ہی امریکی صدر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ روسی صدر ایک قاتل ہے۔ ان کے اس بیان پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
اب اس بات چیت کی دعوت سے صدر بائیڈن نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس کی طرف سے یوکرین میں کوئی بڑی فوجی کارروائی فی الوقت یقینی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ روس نے حال ہی میں اپنی فوجوں کو یوکرین کی سرحد کے قریب جمع کرنا شروع کر دیا تھا اور بظاہر وہ اس اقدام کے ذریعہ مغرب کو ڈرانا چاہتا ہے۔ 7 سال پہلے جب ولادیمیر پوتین نے اپنی فوج اور جنگی سازوسامان مشرقی یوکرین کو منتقل کیا تھا تب وہ ایک خفیہ مہم تھی جس سے آج تک روس انکار کرتا چلا آرہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ پوتین کھلے عام یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ روس کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ اس مسئلہ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یوکرین کی حکومت نے مشرقی علاقہ میں اپنے فوجیوں کو متعین کیا ہے تاکہ کسی بھی اقدام کا مقابلہ کیا جاسکے۔
Published: undefined
کریملن کے ایک سینئر عہدیدار نے خبردارکیا ہے کہ یوکرین کی جانب سے مشرقی علاقہ میں جو فوجی کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ اس کے لئے مہنگی ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے اس کی مثال اس طرح دی جس طرح بچوں کا آگ سے کھیلنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ خود ساختہ دونستک اور لوہانسک جمہوریہ تقریباً نصف ملین افراد پر مشتمل ہیں جو یوکرین کے مشرقی علاقہ میں واقع ہیں۔ اس علاقہ پر روس کی پشت پناہی سے دو خود ساختہ حکومت قائم کی گئی ہیں، جہاں 2014 میں لڑائی چھڑنے کے بعد سے روسی پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے اور روس کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ اس علاقہ میں کسی بھی خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے مقامی حکام کا ساتھ دے۔
Published: undefined
روسی جارحیت :
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یوکرین کی سرحد پر فوج جمع کرنے میں روس کا مقصد کچھ اور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس امریکہ کے دباؤ کو ٹالنے کے لئے یہ قدم اٹھا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ہی امریکی صدر نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس میں روس کے خلاف نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ خاص طور سے امریکہ نے امریکی مالیاتی کمپنیوں کو 14 جون 2021 کے بعد روس کے مختلف سرمایہ کاری اداروں سے سرکاری بانڈس خریدنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ مزید برآں واشنگٹن نے 16 اداروں اور 16 افراد پر بھی پابندی لگائی ہے جن پر امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام لگایا گیا ہے۔ پابندیوں میں کریمیا سے تعلق رکھنے والے 8 افراد اور کمپنیاں بھی شامل ہیں جو علاقائی حکومت کے ارکان ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ نے واشنگٹن میں روسی سفارت خانہ میں کام کرنے والے 10 سفارت کاروں کو بھی ملک سے نکال دیا ہے۔ اس کے بعد روس نے اس کے جواب میں امریکی سفارت کاروں کو نکال دیا اور چیک جمہوریہ نے بھی سفارت کاروں کو نکالا ہے۔
Published: undefined
عالمی برادری اس بات پرحیران ہے کہ ایک طرف امریکہ روس پر پابندیاں عائد کر رہا ہے اور دوسری طرف صدر بائیڈن پوتین سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ اس تعلق سے پوتین نے اپنی قوم سے خطاب کے دوران اپنے موقف کو واضح کر دیا ہے اور مغرب کو روسی معاملات میں مداخلت کے خلاف خبردار کیا ہے۔ بائیڈن نے اگرچہ بات چیت کا اشارہ دیا ہے تاہم بحر اسود کے لئے دو جنگی جہاز روانہ کرنے کا فیصلہ ناقابل فہم ہے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پسکوف نے کہا کہ ماسکو، واشنگٹن اور اس کی پابندیوں کے ساتھ اصولی طور پر نمٹے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کی وجہ سے بائیڈن جو چوٹی ملاقات کے خواہاں ہیں اس کے انعقاد میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
Published: undefined
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوکرین میں فوجی طاقت بڑھانا ولادیمیرپوتین کی جانب سے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ دراصل یوکرینی سرحد پر اور بحرِ اسود میں ایک جنگی ماحول بناکر پوتین مغربی ممالک اور امریکہ پر روس کے خلاف عائد پابندیوں کو ہٹانے کے لیے دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔ اس اقدام کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر امریکہ ان کی بات نہیں مانتا ہے تو وہ اس علاقے میں جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین نے اس پورے معاملے کی تشبیہ ایک ایسی کشتی کے مقابلے سے کی ہے، جس میں دونوں پہلوان ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے کو جھپکی دینا چاہتے ہیں۔ روس- امریکہ معاملے میں صدر جوبائیڈن نے پہلے آنکھ جھپکائی ہے اور صدر پوتین اپنے وار کے ذریعہ اسے کمزوری تصور کرتے ہوئے بھرپور حملہ کرنا چاہیں گے۔
Published: undefined
اب معاملہ دونوں قائدین پر منحصر ہے کہ وہ علاقائی تناؤ کو کم کرنے کے ذریعہ سے چوٹی ملاقات کے لئے راہ ہموار کریں اور باہمی تعلقات کو معمول پر لائیں۔ تاہم دنیا کے دو قدیم حریف ممالک کے درمیان مصالحت کے امکانات کافی موہوم معلوم ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز