لندن: برطانیہ کی ایک نرس لوسی لیٹبی کو بچوں کی ’سیریل کلر‘ قرار دیتے ہوئے سات نومولود بچوں کے قتل اور چھ بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مانچسٹر کی عدالت میں بتایا گیا کہ لوسی نے جون 2015 سے جون 2016 کے درمیان 17 بچوں کو نشانہ بنایا۔ لوسی پر 22 الزامات تھے جن میں سات نومولود بچوں کے قتل کا الزام بھی شامل تھا۔
Published: undefined
لوسی کا پہلا نشانہ ایک ایسا بچہ تھا جو جون 2015 میں پیدا ہو کر مر گیا تھا۔ اس کی پیدائش قبل از وقت آپریشن کے ذریعے 31 ہفتوں کی عمر میں ہوئی تھی اور اسے ہسپتال میں نومولود بچوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔ یہ بچہ پیدائش کے بعد آٹھ جون کو مصنوعی آکسیجن کے بغیر سانس لے رہا تھا جب لوسی نے ایک دوسری نرس کی جگہ لینے کے ایک گھنٹے بعد ڈاکٹروں کو بلایا کہ بچے کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔
Published: undefined
تمام تر کوششوں کے باوجود بچہ جانبر نہیں ہو سکا۔ عدالت میں جیوری کے مطابق اس بچے کی خون کی شریانوں میں جان بوجھ کر ہوا کا انجیکشن لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔
بی بی سی کی تفتیش کے مطابق ہسپتال نے لوسی کے خلاف الزامات سامنے آنے کے بعد بھی کئی ماہ تک پولیس کو مطلع نہیں کیا جبکہ انتہائی نگہداشت کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن بریری نے اکتوبر 2015 میں ہی ان کو لوسی کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود لوسی کو کام کرنے دیا گیا اور اس دوران لوسی نے پانچ مذید بچوں کا قتل کیا۔
بی بی سی پینوراما اور بی بی سی نیوز نے اس معاملے پر تحقیق کی کہ لوسی کیسے بچوں کو قتل کرتی رہیں۔ ہم نے انتہائی نگہداشت یونٹ کے سربراہ سے بات کی جنھوں نے سب سے پہلے لوسی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
Published: undefined
ڈاکٹر بریری نے بتایا کہ انھوں نے جون 2016 میں آخری دو بچوں کی ہلاکت کے بعد مطالبہ کیا کہ لوسی کو کام سے ہٹایا جائے تاہم ہسپتال کی انتظامیہ نے شروع میں انکار کیا۔
بی بی سی کی تفتیش میں یہ بھی علم ہوا کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے ایک موقع پر ڈاکٹروں کو کہا کہ وہ لوسی سے معافی مانگیں اور اس کے خلاف الزامات عائد کرنا بند کر دیں۔
بی بی سی کو علم ہوا کہ جب لوسی کو انتہائی نگہداشت وارڈ سے منتقل کر دیا گیا تب بھی ان کو وارڈ کی حساس دستاویزات تک رسائی حاصل تھی اور وہ سینیئر مینیجرز کے قریب تھیں جن کا کام ان کی تفتیش کرنا تھا۔ جولائی 2018 کی ایک صبح لوسی لیٹبی کو ان کے گھر سے پہلی بار گرفتار کیا گیا اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر لے جایا گیا۔اس وقت وہ 28 سال کی تھیں اور پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں جن کی ذمہ داری پیدا ہونے والے بچوں کی دیکھ بھال کرنا تھا۔
Published: undefined
ان سے ایسے مبینہ جرائم کے بارے میں سوالات ہونے تھے جن کے بارے میں سوچنا بھی مشکل تھا۔ اگر ان کو سزا ہوتی تو وہ دور جدید میں برطانیہ میں کم عمر بچوں کی سیریل کلر یعنی قاتل ثابت ہو جاتیں۔ان کی گرفتاری سے قبل برطانیہ میں چیشائر پولیس نے دو سال تک تفتیش کی جس میں 70 سے زیادہ افسران اور سول حکام نے حصہ لیا۔آپریشن ’ہمنگ برڈ‘ نامی اس خفیہ تفتیش کا مقصد برطانیہ کے کاؤنٹس آف چیسٹر ہسپتال میں نومولود بچوں کی ناقابل فہم ہلاکتوں کا سراغ لگانا تھا۔گرفتاری کے چند ہی گھنٹوں کے اندر لوسی لیٹبی دنیا بھر میں اخباروں کی شہ سرخیوں میں موجود تھیں۔
لوسی کی پہلی گرفتاری کے بعد پولیس نے ان کو ضمانت پر رہا کر دیا لیکن اس کے بعد انھیں دو بار گرفتار کیا گیا اور پھر آخرکار نومبر 2020 میں ان پر فرد جرم عائد ہوئی۔
گزشتہ سال اکتوبر سے 33 سالہ نرس کے خلاف مقدمہ چلا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے جون 2015 سے جون 2016 تک ایک سال میں سات نومولود بچوں کو ہلاک کیا اور 10 بچوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔
Published: undefined
لوسی نے تمام الزامات کی تردید کی لیکن انھیں سات بچوں کے قتل میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔نو ماہ کے مقدمے کے بعد، جس کے دوران ہوشربا انکشافات سامنے آئے، سات خواتین اور چار مردوں پر مشتمل جیوری نے 110 گھنٹے تک سوچ بچار کی اور پھر سزا سنائی۔جیوری نے لوسی پر چھ نومولود بچوں سمیت سات بچوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کے الزام میں بھی ان کو سزا سنائی۔لیکن ہم اس خاتون کے بارے میں کیا جانتے ہیں جس نے ایسے نومولود بچوں کو قتل کیا جن کا خیال رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔
لوسی لیٹبی چار جون 1990 کو پیدا ہوئیں اور ہیئر فورڈ میں پلی بڑھیں۔ ان کے والد جون اور والدہ سوزن مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کی گیلری میں موجود رہے۔ لوسی نے مقامی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے جیوری کو بتایا کہ ’میں ہمیشہ سے بچوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھی۔‘
Published: undefined
لوسی نے چیسٹر یونیورسٹی میں تین سال نرسنگ کی تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران بھی انھوں نے کاؤنٹس آف چیسٹر ہسپتال کے نومولود بچوں کے وارڈ میں کام کیا۔ستمبر 2011 میں پڑھائی مکمل ہونے کے بعد انھوں نے جنوری 2012 میں اسی ہسپتال میں نوکری حاصل کر لی۔2015 میں انھیں نومولود بچوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت مل گئی۔لوسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کا زیادہ تر وقت بیمار بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز