آج یعنی کہ 10 مارچ کو تبت کی طرف سے چین کے خلاف 1959 میں شروع کی گئی تحریک کو 60 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس تحریک کے بعد تبت کے بودھ مذہبی پیشوا دلائی لامہ کو جلا وطن ہو کر ہندوستان آنا پڑا تھا۔
دلائی لامہ کی حکومت نے 1951 تک تبت کی سرزمین پر حکمرانی کی تھی۔ ماؤ تسے تنگ کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے تبت پر قبضہ کرنے سے پہلے تک یہ چین کا حصہ نہیں تھا۔ تبت کے لوگ اور دیگر کالم نگار چین کی طرف سے کیے گئے اقدام کو ثقافتی نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ تبت کے باشندگان نے مارچ 1959 میں چینی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی ناکام کوشش کی تھی، جس وجہ سے 14ویں دلائی لامہ کو ہندوستان میں پناہ لینی پڑی تھی۔
Published: undefined
تبت میں چینی حکمرانی کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر بیجنگ حکومت اب بھی اپنی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ جو لوگ ان کی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہیں وہ متعصب ہیں۔ تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو جلا وطنی کی زندگی گزارتے ہوئے 60 سال ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
تبت میں تحریک آزادی کے 60 سال مکمل ہونے پر چینی خبررساں ادارے ’شنہوا‘ نے اپنے ایک اداریہ میں لکھا ہے کہ خطے میں ہونے والی اقتصادی ترقی، شہریوں کی اوسط عمر میں اضافہ اور بہتر تعلیمی سہولیات ناقدین کے سوالوں کا جواب ہیں۔
Published: undefined
شنہوا نے اپنے اس اداریہ میں تحریک آزادی کے آغاز کا براہ راست ذکر نہیں کیا بلکہ 1959 میں پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ’جمہوری اصلاحات‘ کی ابتدا قرار دیا۔ اور ان واقعات کو بدھ راج اور سامراجی ڈھانچے کے خاتمے سے تشبیہ دی۔
Published: undefined
تبت چین کے زیر انتظام ہے اور یہاں پر سلامتی کے اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔ دیگر ممالک میں رہنے والے تبتیوں کا کہنا ہے کہ چین اپنے مفاد کی خاطر ہمالیہ کے خطے میں موجود وسائل کا استحصال کر رہا ہے جبکہ تبت کی زبان اور منفرد بودھ ثقافت کو رفتہ رفتہ تباہ کیا جا چکا ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب چین کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ صدیوں سے اس کا حصہ رہا ہے جبکہ بہت سے تبتیوں کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر زیادہ تر وقت آزاد ہی رہے ہیں۔ کمیونسٹ دستوں نے 1950 میں ایک مختصر سی فوجی کارروائی کے بعد اس خطے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
Published: undefined
خبر رساں اداروں کے مطابق تبت کے موجودہ حالات کے بارے میں آزادانہ طور پر معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ غیر ملکی سیاح ایک خصوصی اجازت نامے کے بعد ہی تبت جا سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی صحافیوں کو بھی شاذ و نادر ہی وہاں تک رسائی دی جاتی اور تبتیوں کے تہواروں کے موقع پر تو غیر ملکیوں کے وہاں جانے پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔
Published: undefined
تبیتوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو اس موقع پر ایک خط ارسال کیا گیا ہے، جس کے مطابق، ’’چین نے اپنے طویل دور حکمرانی کے دوران شہریوں کے انسانی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی ہے۔ اب بین الاقوامی برادری کی جانب سے جرات مندانہ رد عمل ظاہر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
(ڈی ڈبلیو ان پٹ کے ساتھ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز