خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ لندن کے اس مریض کے جسم میں گزشتہ انیس ماہ سے ایچ آئی وی کے آثار نہیں دیکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے انیس ماہ سے اس مریض کو کوئی دوا یا تھیراپی نہیں دی ہے، جس کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ وہ اب تندرست ہو چکا ہے۔ اس مریض کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں میں اسے ’لندن کا مریض‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST
اے ایف پی کے مطابق محققین ایک میڈیکل کانفرنس میں اس کیس سے متعلق مزید معلومات فراہم کریں گے۔ دس برس قبل اسی طریقہ علاج کے تحت برلن میں ایک ایچ آئی وی پازیٹو شخص کا کامیاب علاج کیا تھا۔ ان دونوں کیسوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کا طریقہ کار استعمال کیا گیا، جو دراصل خون کے سرطان میں مبتلا مریضوں کا علاج قرار دیا جاتا ہے۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST
اس علاج کے تحت کسی ڈونر سے تندرست سٹیم سیلز لیے جاتے ہیں، جو مریضوں کے جسم میں موجود متاثرہ خلیوں سے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ علاج کا طریقہ کار اور نتائج تحقیقی جریدے انٹرنیشنل سائنس جرنل ’نیچر‘میں شائع کیےگئے ہیں۔ سائنسی محقق روندر گپتا کے مطابق، ’دوسری بار وہی طریقہ استعمال کرنے سے اب برلن کا مریض غیر معمولی نہیں رہا‘۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST
یہ اپنی طرح کی ایک نایاب جینیاتی تبدیلی ہے۔ وقت بدل رہا ہے، سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کارآمد تحقیق جینیاتی انجینئرنگ کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں مریضوں میں یہ جینیاتی تبدیلی سٹیم خلیات کے ذریعے کی گئی۔ ایچ آئی وی پازیٹو کے مریض کے خلیات کو ایک تندرست انسان کے اسٹیم خلیات سے بدل دیا گیا جسے سی سی آر فائیو کا نام دیا گیا ہے۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST
اس تکنیک سے مریض کے جسم میں ایچ آئی وی وائرس کو ختم کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن سٹیم سیلز کی یہ تبدیلی بیماری سے مکمل بچاؤ کی ضمانت نہیں ہے۔ لندن کے اس مریض میں ایچ آئی وی کی تشخیص 2003 میں ہوئی تھی اور 2012 تک اس مریض پر اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی ’اےآر وی‘ آزمائی گئی۔ یہ عمل اس وائرس کے اثر کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا تاہم یہ اسے مکمل طور پر ختم نہیں کر پاتا۔ اس مریض کا بون میرو ٹرانسپلانٹ 2016 میں کیا گیا اور علاج روکنے سے پہلے سولہ ماہ تک اسے اس عمل سے گزارا گیا۔ انیس ماہ گزر چکے ہیں ابھی تک یہ مریض خطرے سے باہر بتایا جارہا ہے۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST
سائنسی محقق روندر گپتا نے کہا کہ اس مریض کا جسم اب ایچ آئی وی سے بالکل صاف ہے، لیکن اس بارے میں حتمی رائے دینا ابھی قبل از وقت ہے کہ مسقبل میں بھی یہ ایسا تندرست ہی رہے گا۔ یہ دوسرا کامیاب مریض بھی معالجین کے لیے علاج کے مزید طریقے وضع کرنے مددگار ثابت ہوا ہے۔ تاہم یہ طریقہ علاج خطرناک، تکلیف دہ اور مہنگا بھی ہے۔ دنیا بھر میں موجود ایچ آئی وی کے مجموعی مریضوں میں سے صرف انسٹھ فیصد کو ’اےآر وی‘ جیسی سہولیات میسر ہیں۔ 1980 سے لے کر اب تک ایڈز کا مرض 35 ملین انسانوں کی جان لے چکا ہے۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM IST