مواصلاتی نظام پر غیر معمولی پابندی سے قبل اس وَہاٹس ایپ گروپ کے ذریعے امراض قلب میں مبتلا ہزاروں افراد کا بر وقت اور مفت علاج ممکن ہوا کرتا تھا۔ محض اکیس ماہ کے اندر اندر اس گروپ کی مدد سے تین خطوں جموں، کشمیر اور لداخ میں تقریباً تیس ہزار مریضوں کے اڑتیس ہزار سے زائد ای سی جی کرائے گئے تھے۔ ان میں ایک ہزار ایسے مریض بھی شامل تھے جنہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا لیکن بر وقت طبی امداد کی فراہمی کے سبب ان کی جانیں بچا لی گئیں۔
Published: undefined
کشمیری ڈاکٹروں پر مشتمل ''سیو ہارٹ کشمیر‘‘ نامی وَہاٹس ایپ گروپ نومبر دو ہزار سترہ کو اس مقصد سے قائم کیا گیا تھا تاکہ دل کے مریضوں کا بروقت اور مفت علاج ممکن ہو سکے۔ جموں و کشمیر میں چھوٹے بڑے ایک سو تیس ہسپتالوں کے تقریباً بارہ سو ممبران اس گروپ کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر عمران، ڈاکٹر عرفان بھٹ، ڈاکٹر ناصر شمس، ڈاکٹر مظفر زرگر، ڈاکٹر ریحانہ کونثر اور آفاق جیلانی جیسے ماہرین اس وَٹس ایپ گروپ کے ارکان ہیں۔
Published: undefined
اس گروپ میں ڈاکٹر خواہ دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں، اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیا کرتے تھے جس سے مریضوں کا وقت پرصحیح علاج ہوا کرتا تھا۔ بھارت میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے پانچ اگست کی صبح کو اپنے ایک متنازعہ فیصلے میں جموں و کشمیر کی داخلی خود مختاری اور ریاستی حیثیت ختم کردی تھی جس کے بعد سے ہی وہاں 80 لاکھ سے زائد مقامی باشندے انٹرنیٹ، پری پیڈ موبائل فون، ایس ایم ایس اور وَہاٹس ایپ کی بنیادی سہولیات سے مسلسل محروم ہیں۔
Published: undefined
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیا پال ملک نے اپنے ایک متنازعہ بیان میں کہا تھا کہ انٹرنیٹ سے کشمیری عسکریت پسند مستفید ہوتے ہیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کے اپنے فیصلے کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ کشمیر میں آزادی پسند اور پاکستان نواز قوتیں انٹرنیٹ کا استعمال بھارت کے خلاف مظاہروں کے لیے کرتے ہیں۔
Published: undefined
کشمیر میں مواصلاتی نظام پر غیر معمولی پابندی سے قبل ایک مریض نے بھارت کے معیاری وقت کے مطابق نصف شب دو بجے اس وَہاٹس ایپ گروپ میں ایک ایس او ایس پیغام بھیجا۔ آسٹریلیا میں مقیم ایک کشمیری ڈاکٹر نے اس پیغام کو دیکھتے ہی کشمیر میں ایک ماہر قلب کو فوراً فون کیا اور مریض کے علاج میں بھی بر وقت رہنمائی کی۔ اس طبی مدد سے اس کی جان بچ گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ وثوق سے یہ بتانا مشکل ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی کے نتیجے میں اب تک کتنے افراد کی جانیں گئیں ہیں۔
Published: undefined
سری نگر میں قائم شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ایک ماہر قلب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''دل کے مرض میں سب سے زیادہ اہمیت وقت کی ہوتی ہے۔ سیو ہارٹ کشمیر وَہاٹس ایپ گروپ کے ذریعے امراض قلب میں مبتلا افراد کا بروقت علاج ممکن تھا، لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی سے کتنے افراد کی جانیں جا چکی ہوئیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
سری نگر کے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں ایک اور ہارٹ اسپیشلسٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سیو ہارٹ کشمیر گروپ کے ممبران کے مطابق ان کا وَہاٹس ایپ گروپ اس وقت کسی کو بھی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
Published: undefined
چار ماہ قبل عمر سلیم نامی ایک کشمیری ڈاکٹر نے ہسپتال کے باہر مریضوں کو درپیش مشکلات پر ایک بیان دیا تھا جس کے بعد انہیں عارضی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر یہ پیغام درج تھا: ''یہ احتجاج نہیں گزارش ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم کی احتیاطی حراست کے باعث اب ڈاکٹر میڈیا سے بات کرنے سے خوف زدہ ہیں۔
Published: undefined
ماہر قلب ڈاکٹر ناصر شمس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سردیوں کے موسم میں دل، بلند فشار خون، ذیابیطس اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیو ہارٹ کشمیر وَہاٹس ایپ گروپ میں روزانہ پچاس سے زائد ای سی جی کرائے جاتے تھے اور بیس تا تیس ایسے افراد کا جنہیں دل کا دورہ پڑتا تھا، بر وقت علاج ممکن بنایا جاتا تھا۔
Published: undefined
مشرق وسطیٰ میں قائم امریکن کانفرنس آف کارڈیا لوجسٹس اور انڈین کانفرنس آف کارڈیا لوجسٹس نے سیو ہارٹ کشمیر کے کام کی بہت ستائش کی تھی۔ کشمیری ڈاکٹروں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ایسے گروپوں میں معاشی ترجیحات شامل ہوتی ہیں لیکن سیو ہارٹ کشمیر ایک ایسی پہل تھی جس میں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا اور اقتصادیات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
Published: undefined
کشمیر اور دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیری ڈاکٹروں پر مشتمل اس وَہاٹس ایپ گروپ کے ذریعے امراض قلب میں مبتلا افراد یا سینے میں درد محسوس کرنے والے عام لوگ منٹوں میں ماہرین قلب کے رابطے میں آجاتے تھے۔ اس سہولت کے نتیجے میں وہ بروقت علاج اور ماہرین قلب کے مشوروں سے مستفید ہوا کرتے تھے۔
Published: undefined
تاہم گزشتہ ایک سو پینتیس روز سے کشمیری عوام انٹرنیٹ کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ مسلسل چار ماہ تک وَہاٹس ایپ سے دوری کی صورت میں انٹرنیٹ صارفین خودبخود گروپ سے بے دخل ہوجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی میں لاکھوں کشمیری وَہاٹس ایپ گروپوں سے بے دخل ہوگئے ہیں۔
Published: undefined
دوسری جانب سری نگر میں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے اپنی ایک تازہ مفصل رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس پانچ اگست سے اب تک انٹرنیٹ پر جاری پابندی کے باعث کشمیری معیشت کو اٹھارہ ہزار کروڑ کی خطیر رقوم کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
Published: undefined
یاد رہے کہ جموں و کشمیر میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈر اور سری نگر میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اور نیوروسائنس کے ایک مشترکہ جائزے میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا تھا کہ کشمیر میں بالغ آبادی کا چوالیس فی صد کسی نہ کسی ذہنی دباوٴ یا ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز