عالمی ادارۂ صحت نے کورونا کے ڈیلٹا ویریئنٹ کو لے کر حیران کرنے والی بات کہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریوسس نے کہا کہ دنیا کووڈ-19 وبا کے ایک خطرناک دور میں پہنچ چکی ہے۔ اس کے پیچھے کی وجہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے 100 سے زائد ممالک میں پہنچ جانا ہے۔ ایک پریس بریفرنگ میں گیبریوسس نے کہا کہ ہندوستان میں پہلی مرتبہ سامنے آیا ڈیلٹا ویریئنٹ میں اب بھی بدلاؤ اور میوٹیشن ہو رہے ہیں اور یہ کئی ممالک میں کووڈ-19 کا سب سے زیادہ خطرناک ویریئنٹ بن کر ابھرا ہے۔
Published: undefined
ڈبلیو ایچ او سربراہ نے اس بات کا مشورہ دیا کہ ٹیکہ کاری کے ذریعہ وبا کے تیز مرحلہ کو ٹھیک ڈھنگ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی دنیا بھر کے لیڈروں سے یہ یقینی کرنے کی گزارش کی ہے کہ اگلے سال اس وقت تک ہر ملک میں 70 فیصد لوگوں کو ٹیکہ لگا دیا جائے۔ ڈبلیو ایچ او سربراہ نے کہا کہ یہ کچھ ممالک کی اجتماعی قوت کے اندر ہے کہ وہ قدم اٹھائیں اور یقینی کریں کہ ویکسین بانٹی جائیں۔ انھوں نے بتایا کہ ابھی تک تین ارب ویکسین خوراک شیئر کی جا چکی ہیں۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ ابھی تک دنیا بھر میں لگائی گئی کووڈ ویکسین کا صرف دو فیصد ٹیکہ کاری ہی غریب ممالک میں ہوئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کناڈا جیسے امیر ممالک نے ایک ارب ویکسین شیئر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او سربراہ نے کہا کہ اگر کچھ ممالک ٹیکہ کاری میں پیچھے رہ جائیں گے تو یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہوگا۔ اس سے پہلے ٹیڈروس گیبریوسس نے کہا تھا کہ کورونا کے اب تک جتنے بھی ویریئنٹ کی شناخت ہوئی ہے ان میں ڈیلٹا سب سے زیادہ انفیکشن والا ہے اور یہ ان لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے جنھیں اینٹی کووڈ ویکسین نہیں لگی ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ ٹیڈروس گیبریوسس نے اس سے قبل کہا تھا کہ کچھ ممالک نے عوامی صحت اور سماجی پابندیوں میں ڈھیل دے دی ہے، ایسے میں دنیا میں انفیکشن کے معاملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کورونا وائرس سے لڑائی کے لیے آج کے وقت میں جو اقدام اٹھائے جاتے ہیں وہ ڈیلٹا سمیت وائرس کے دیگر فکر انگیز شکلوں کے خلاف بھی اثردار ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined