ہندوستان کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی گلوکارہ لتا منگیشکر اور سب سے زیادہ ماہر اداکار دلیپ کمار ایک دوسرے کے پرستار تھے۔ دلیپ صاحب لتا منگیشکر کو چھوٹی بہن کہتے تھے اور بالکل سگی بہنوں کی طرح چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب لتا جی نے لندن کے البرٹ ہال میں بیرونِ ملک کا اپنا پہلا لائیو کنسرٹ کیا تو دلیپ صاحب نے بین الاقوامی سامعین سے ’چھوٹی بہن‘ کہہ کر ان کا تعارف کرایا تھا اور پھول کی خوشبو، بہتے ہوئے پانی کے جھرنے، ٹھنڈی ہواؤوں کے جھونکے، ابھرتے ہوئے سورج کی کرنوں اور معصوم بچے کی مسکراہٹ سے ان کا موازنہ کیا تھا۔
Published: undefined
اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے لتا منگیشکر کے چہرے پر آج بھی چمک آ جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’لندن میں جب میرا پہلا لائیو کنسرٹ تھا تو انہوں نے بہت خوبصورتی سے میرا تعارف کرایا تھا۔ انہوں نے میرے کیرئر کو عروج دینے میں بہت تعاون کیا تھا۔‘‘ میں نے پوچھا وہ کیسے تو انہوں نے کہا کہ جس وقت میں دلیپ صاحب سے پہلی مرتبہ ملی تھی تو میں ایک نئی گلوکارہ تھی۔ وہ نور جہاں کا دور تھا اور وہ اس وقت راج کرتی تھیں۔ دلیپ صاحب نے ایک مرتبہ پوچھا تھا کہ میں کہاں سے ہوں۔ یہ سننے کے بعد کہ میں مہاراشٹر سے ہوں، انہوں نے کہا ’تبھی ان کی آواز میں چاول اور دال کی خوشبو آتی ہے!‘ اس بات نے میرے دل پر اثر کیا تھا۔ میں نے اپنی زبان و تلفظ کو درست کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک مولوی صاحب سے اردو کا درس لینے لگی۔ اور اس طرح میرا تلفظ درست ہوا اور میں بہت کچھ کر پائی۔
Published: undefined
سال 1957 میں لتا جی کو دلیپ کمار کے ساتھ گانا گانے کا نادر موقع حاصل ہوا۔ وہ کہتی ہیں "یہ ریشی دا (فلمساز رشی کیش مکھرجی) کی فلم مسافر کے لئے تھا۔ سلی دا (سلیم چودھری) نے ’جا جا رے سوگنا جا رے… لاگی نہیں چھوٹے راما چاہے جِیا جائے‘ نغمہ کے بول لکھے تھے۔ دلیپ صاحب نے اس گانے کے لئے دو مہینے تک مشق کی تھی۔
Published: undefined
دراصل، دلیپ صاحب نے اپنی چھوٹی بہن لتا سے کہا تھا کہ وہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ریکارڈنگ کے دوران ان کے سامنے کوئی پیشہ ور گلوکار نہیں ہوگا۔ لیکن آخر میں دلیپ صاحب نے محسوس کیا کہ لتا نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی اور وہ اس بات سے ناخوش ہو گئے۔
Published: undefined
لتاجی کہتی ہیں، "وہ کئی دہائیوں سے میرے بڑے بھائی رہے تھے اور میں ان کی چھوٹی بہن رہی تھی۔ میری ان سے کچھ سال قبل آخری بار اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب میں ان سے ملنے ان کے گھر گئی تھی۔ میں نے سوچا کہ وہ مجھے پہچان نہیں پائیں گے لیکن انہوں نے نہ صرف پہچان لیا بلکہ پرانی باتیں بھی دہرانے لگے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گئی اپنے ساتھ گائے گانے، ’’لاگی نہیں چھوٹے راما‘‘ کے ابتدائی الفاظ کہے۔ انہوں نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر بقیہ سطر پوری کرتے ہوئے کہا، ‘چاہے جیا جائے‘۔
Published: undefined
ان کے رہائشی کمرے میں ایک خاص جگہ ہے جہاں مہمانوں سے ملنے کے دوران سائرا جی انہیں بیٹھاتی تھیں، لیکن انہوں نے میرے ساتھ بیٹھنے پر اصرار کیا۔ انہوں نے یہ بھی اصرار کیا کہ میں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں۔ میں نے انہیں تھوڑا سا پنیر کھلایا۔ اس کے بعد میرے جانے کا وقت ہو گیا۔ وہ مجھے وداع کرنے کے لئے باہر تک آنا چاہتے تھے لیکن سائراجی نے اصرار کیا کہ وہ چھوڑ آئیں گی۔ اس کے بعد خواہش ہونے کے باوجود میں ان سے ملنے کے قابل نہیں رہی۔ وہ اب ایسی جگہ چلے گئے ہیں کہ میں ان سے نہیں مل سکتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined