تعلیم اور کیریر

مختلف ممالک میں یومِ اساتذہ اور اس کی تاریخ

مختلف ممالک میں یومِ اساتذہ اور اس کی تاریخ

‘Getty Images
‘Getty Images 

’یومِ اساتذہ‘ کا وقار اکیسویں صدی میں بھلے ہی اتنا نہیں رہا جتنا کہ پہلے کے دور میں ہوا کرتا تھا لیکن اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 65 سے بھی زائد ممالک ایسے ہیں جو ’عالمی یومِ اساتذہ‘ کی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر ایام کی طرح ’یومِ اساتذہ‘ الگ الگ ممالک میں الگ الگ تاریخوں میں منایا جاتا ہے۔ افغانستان، بحرین، بیلاروس،برازیل، کولمبیا، چین، مصر، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، نیوزی لینڈ، یمن، امریکہ، سری لنکا... ایک طویل فہرست ہے جو اپنے طور پر ’یومِ اساتذہ‘ مناتے ہیں ۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہے کچھ اہم ممالک میں ’یومِ اساتذہ‘ کے پس پردہ موجود وجوہات کی مختصر روداد۔۔۔

ایران – 2 مئی

سنہ 1979 کا یہ وہ دن ہے جب مشہور و معروف فلسفی اور استاذ ڈاکٹر مرتضیٰ مطہری کو دیر رات ایک میٹنگ سے واپسی کے دوران گروہِ فرقان کے ایک ممبر نے گولی کا نشانہ بنایا۔ بوقت شہادت وہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی آئینی کاؤنسل کے صدر تھے۔ انہوں نے تقریباً 22 سال تک تہران یونیورسٹی میں فلسفہ کی تعلیم دی اور بعد ازاں شمالی تہران کے حسینیہ ارشاد میں 1965 سے 1973 کے درمیان متعدد لکچرس بھی دئیے۔ ایران، اسلام اور تاریخی موضوعات پر مبنی انہوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف دیں لیکن وہ اس کی بجائے تعلیم و تعلّم پر زیادہ زور دیتے تھے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے مرحوم استاد کی کارگزاریوں اور تحریروں پر مبنی کئی کتابیں بھی شائع کیں۔ ڈاکٹر مرتضیٰ کی اسلامی تاریخ پر گرفت بہت اچھی تھی اور انہوں نے اپنی تحریروں میں گروہِ فرقان و پیپلز مجاہدین آف ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تنظیمیں اسلام کا نام لے کر دوسروں کو فریب دے رہی ہیں، جو کہ خطرناک ہے۔

شر پسندوں کے خلاف ان کی اسی مہم نے انہیں شہادت کا جام عطا کیا اور ایران کی تاریخ میں ان کے یوم وفات کو ’یوم اساتذہ‘ کی شکل میں منایا جانے لگا۔

انڈونیشیا– 25 نومبر

انڈونیشیا کی آزادی کے 100 دنوں بعد 25 نومبر 1945 کو انڈونیشیائی ٹیچرس ایسو سی ایشن کا قیام عمل میں آیا جسے ’پرساچوان گرو ریپبلک انڈونیشیا‘ (پی جی آر آئی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ادارے کو ’پرساچوان گرو ہندیا بیلاندا‘ (پی جی ایچ بی) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ 1912 میں وجود میں آنے والا یہ ادارہ اساتذہ کے مسائل اور ان کی ضروریات پر نظر رکھتا تھا۔ اس کے بعد 1932 میں اس کا نام بدل کر ’پرساچوان گرو انڈونیشیا‘ (پی جی آئی) رکھا گیا اور بالآخر آزادی ملنے کے بعد باضابطہ اسے پی جی آر آئی کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اس ادارے نے اپنی ذمہ داری کو لگاتار بہتر ڈھنگ سے نبھایا اور ایک جنگجو کی طرح اساتذہ کے حق میں کام کرتی رہی ہے۔ اسی کے پیش نظر 1994 میں صدارتی حکم کے بعد پی جی آر آئی کے یوم قیام کو ’یومِ اساتذہ‘ کی شکل میں منایا جانے لگا۔اس دوران ایک رسمی تقریب منعقد کر کے اساتذہ، ہیڈ ماسٹر اور اسکول اسٹاف کو ترقی دی جاتی ہے اور انہیں اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔

بھوٹان- 2 مئی

ملک کے تیسرے ’ڈرُک گیالپو‘ یعنی بادشاہ جگمے دورجی وانگ چک نے 1952 میں جب بھوٹان کی قیادت سنبھالی تھی تو بھوٹان دوسرے ممالک کے مقابلے سیاسی، تعلیمی اور ترقیاتی شعبے میں بہت پیچھے تھا۔ انہوں نے اقتدار ہاتھ میں آتے ہی سب سے پہلے غلامی اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے کسانوں اور مزدوروں کو آزادی عطا کی۔ اس کے فوراً بعد ہائی کورٹ کا قیام عمل میں لایا۔ پھر دھیرے دھیرے انہوں نے ٹرانسپورٹیشن اور ایجوکیشن کے شعبہ میں کام شروع کیا۔ دورجی نے اپنے 20 سالہ دور اقتدار میں جہاں تقریباً 1770 کلو میٹر سڑک کی تعمیر کی، وہیں اس دوران ملک میں اسکولوں کی تعداد کو 102 تک پہنچا دیا۔ ان اسکولوں میں انہوں نے جدید تعلیم کا بھی انتظام کیا۔ اس طرح انہوں نے ملک کے نقشے کو پوری طرح تبدیل کر دیا اور یہی سبب ہے کہ آج بھوٹان میں ان کی سالگرہ یعنی 2 مئی کو ’یوم اساتذہ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

البانیا- 7 مارچ

1887 سے قبل ملک میں ایسا کوئی اسکول نہیں تھا جہاں کا ذریعہ تعلیم البانیائی ہو۔ شمالی اور وسط البانیا کے سبھی اسکول کیتھولک چرچ کے ماتحت کام کرتے تھے، جب کہ جنوب کے قدامت پسند چرچ البانیائی اسکول کے قیام کے سخت مخالف تھے۔ ایسے وقت میں ملک کے ترقی یافتہ شہر ’کورسا‘ میں 7 مارچ کو پہلے ایسے سیکولر اسکول کا قیام عمل میں آیا جہاں اسباق البانیائی زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔ چونکہ یہ شہر مغربی یورپ اور امریکہ سے براہ راست رابطے میں تھا اس لئے یہاں کے لوگوں پر اس کا اثر بھی مرتب ہوا اور سیکولر البانیائی اسکول وجود میں آیا۔ ابتدائی دور میں یہاں بچوں کو ’ٹریولنگ ٹیچر‘ کے ذریعہ تعلیم دی گئی اور پھر دھیرے دھیرے ماحول سازگار ہوتا چلا گیا۔ البانیا کی تاریخ میں اسے ایک انقلابی قدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کے پیش نظر یہ دن واقعی ’یومِ اساتذہ‘ کے لئے بالکل مناسب ہے۔

پولینڈ- 14 اکتوبر

بادشاہ اسٹینسلا اگست پونیاٹوسکی اور پولش پارلیمنٹ کے ذیلی ہاؤس ’سیجم‘ کی پہل کے بعد 14 اکتوبر 1773 کو ’کمیشن آف نیشنل ایجوکیشن‘ کا قیام عمل میں آیا اور اسی کی سالگرہ کو پولینڈ میں ’یوم اساتذہ‘ بھی قرار دیا گیا۔ ’کمیشن آف نیشنل ایجوکیشن‘ کا قیام پولینڈ کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور اسے ملک کی پہلی ’وزارت تعلیم‘ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل پولینڈ اور لتھوانیا میں تعلیمی ذمہ داریاں جیسوئٹس سنبھالتے تھے۔ یہ طلباء کو بہترین تعلیم بھی فراہم کرتے تھے، لیکن ان کے رویے میں قدامت پسندی کا عنصر بھی موجود تھا۔ 1773 میں پوپ نے کچھ اسباب کی بنا پر ’جیسوئٹ آرڈر‘ تعلیمی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا۔ اس صورت میں پولش-لتھوانیا دولت مشترکہ میں تعلیمی ڈھانچہ پوری طرح منہدم ہو جانے کا خطرہ تھا، اسی لئے بروقت ’کمیشن آف نیشنل ایجوکیشن‘ کا قیام کافی اہمیت کا حامل ہے۔

ترکی- 24 نومبر

مصطفی کمال اتاترک نہ صرف ملک کے پہلے صدر تھے بلکہ انہیں ’پرائم ٹیچر‘ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ترکی زبان میں اصلاحات کے لئے ’ترکش لینگویج ایسو سی ایشن‘ کے نام سے ایک ایسی کمیٹی قائم کی تھی جس کے ذریعہ اس زبان سے پرسو-عربک رسم الخط کو ختم کر کے لاطینی رسم الخط کو رواج دیا گیا اور دوسری زبانوں سے مستعار الفاظ کو بے دخل کر نئی جدید ترکش زبان منظر عام پر آئی۔ ترکش زبان میں اصلاحات کے بعد سب سے مشکل کام اس کے فروغ کا تھا اور یہی سبب ہے کہ مصطفی کمال نے اپنے ایک بیان میں اساتذہ کی اہمیت و افادیت کو ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نئی نسل کی تعمیر اساتذہ کریں گے‘‘۔ تقریباً مردہ ہو چکی ترکش زبان کو دوبارہ عروج بخشنے کی اس کامیاب کوشش کے سبب ہی 24 نومبر 1934 کو عوام کے ذریعہ انہیں ’اتا ترک‘ کا خطاب دیا گیا۔ بعد ازاں 1981 میں ملک کے ساتویں صدر کینن ایورین نے 24 نومبر کو ’یوم اساتذہ‘ کی شکل میں منائے جانے کا اعلان کیا۔

ارجنٹائنا- 11 ستمبر

یہاں ’یومِ اساتذہ‘ ملک کے ساتویں صدر ڈومنگو فاسٹینو سرمینٹو کی کارگزاریوں کے اعتراف کی شکل میں 11 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ 1888 کا یہی وہ دن ہے جب دورۂ قلب کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا تھا۔ ڈومنگو ایک عظیم معلم تھے جنہوں نے اپنی مدت کار میں تعلیمی شعبہ میں بے پناہ ایسے اقدام کئے جس نے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کئی مقامات پر بحریہ اسکول، فوجی اسکول، زراعتی اور جنگلاتی اسکول کے قیام کی راہ ہموار کی۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ملک کا بہتر مستقبل اساتذہ کے کندھوں پر ہوتا ہے اور ان کی نااہلیت کے سبب ملک پر منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں اساتذہ کے لئے تربیتی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا۔ بعد ازاں انہوں نے اساتذہ کی تربیت کے لئے اساتذہ تربیتی اسکول بھی قائم کئے۔ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ارجنٹائنا تعلیمی میدان میں بہتر کر رہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined