تعلیم کی اہمیت سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم پر صرف قوم کی تعمیر و ترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر باریک نظر ڈالیں، تو خود بخود احساس ہو جائے گا کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا میں بالادستی قائم رکھنے والے ممالک امریکہ، لندن، آسٹریلیا، کناڈا، فرانس، جرمنی وغیرہ کی جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے، وہیں ناروے، روس، قزاقستان نے تو بالترتیب 100 فیصد، 99.6 فیصد، 99.5 فیصد شرح خواندگی حاصل کر کے اپنی دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان ممالک کے ساتھ خاص بات یہ ہے کہ خواتین تعلیم کے معاملے میں مردوں سے قطعی پیچھے نہیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی خواتین نے تو مردوں کو اس شعبہ میں حیرت انگیز طور سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ 2003 کے اعداد و شمار کے مطابق متحدہ عرب امارات میں مردوں کی 76.1 فیصد شرح خواندگی کے مقابلے 81.7 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ خواتین سرخ رو نظر آتی ہیں۔ تعلیم کے تئیں ان ممالک میں موجود بیداری ہی ہے جو نہ صرف انھیں داخلی بلکہ خارجی طور پر بھی مضبوط بناتی ہے۔ افغانستان (28.1 فیصد)، بنگلہ دیش (56.8 فیصد)، بھوٹان (46 فیصد)، ایتھوپیا (42.7 فیصد)، نیپال (66 فیصد)، پاکستان (54.9 فیصد) وغیرہ ممالک کی غربت کے اہم اسباب میں خراب شرح خواندگی بھی شامل ہے۔ اِن ممالک میں خواتین کی شرح خواندگی تو مزید ابتر ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک ہندوستان کا سوال ہے، یہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ 2001 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی شرح خواندگی صرف 64.8 فیصد بتائی گئی تھی، لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں اس شرح میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ 2011 میں ہوئی مردم شماری میں خواندگی کی یہ شرح 74 فیصد کو عبور کر گئی۔ اعداد و شمار کا یہ فرق مثبت تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ شرح خواندگی میں ہوئے اس اضافے کو دیکھتے ہوئے ہی فروغ انسانی وسائل کےسابق مرکزی وزیر جناب ایم ایم پلّم راجو نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران 2015 تک ہندوستان کی شرح خواندگی 80 فیصد تک پہنچ جانے کی بات کہی تھی۔ دراصل ہماری سرکار تعلیم کی اہمیت و افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے برابر نئی نئی اسکیمیں شروع کرنے کے ساتھ ساتھ دیہی عوام کو تعلیم کے تئیں بیدار کرنے کے لئے متعدد پروگرام کا انعقاد بھی کر رہی ہے۔ خواندگی کے معاملے میں اب تک ہندوستان کے پیچھے رہنے کی اصل وجہ پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی تعلیم سے دوری رہی ہے۔ خصوصاً خواتین اس شعبہ میں مردوں سے بہت پیچھے نظر آتی ہیں۔ اگر طبقاتی اعتبار سے 2001 کی مردم شماری پر نظر ڈالی جائے تو اقلیتوں میں مسلمانوں (59.1 فیصد) کی شرح خواندگی عیسائی (80.3 فیصد)، سکھ (69.4 فیصد) اور بودھ (72.7 فیصد) کے مقابلے کافی کم ہے۔ بلکہ عیسائی، سکھ اور بودھ مذہب کی شرح خواندگی تو اکثریتی طبقہ ہندو (65.1 فیصد) سے بھی بہتر ہے۔ اس اعداد و شمار سے اقلیتی طبقات عیسائی، سکھ اور بودھ میں موجود خوشحالی کا سبب ظاہر ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں درج فہرست ذات (54.7 فیصد) اور درج فہرست قبائل (47.1 فیصد) کی شرح خواندگی قابل رحم ہے۔ جہاں تک خواتین کی خواندگی کا سوال ہے، مسلمانوں میں یہ شرح 50.1 فیصد، درج فہرست ذات میں 41.9 فیصد اور درج فہرست قبائل میں 34.8 فیصد ان کے درمیان موجود بے چارگی، لاچاری اور بے بسی کا حال بیان کر رہا ہے۔ یہ ملک کے ایسے طبقات ہیں جو ہندوستان کی ترقیاتی رفتار کو مزید بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن فی الحال ان کی خود کی معاشی حالت دگر گوں ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں اور بوڑھے و بچے عدم غذائیت کی بیماریوں میں مبتلا۔ ظاہر ہے جس ملک کی ایک بڑی آبادی کو بے روزگاری اور بیماری کا سامنا ہے، اس ملک کی ترقیاتی رفتار کو تیز کرنا امر محال ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس طرف کسی کی توجہ نہیں، تو یہ قطعاً صحیح نہیں۔ کیونکہ آج متعدد سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے تعلیم و روزگار کو مدنظر رکھتے ہوئے باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں شرح خواندگی میں ہوئی مثبت تبدیلی اس کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کو روزگار بھی ملا ہے اور ان کی طرز زندگی کا معیار بھی بدلا ہے۔ اس مہم کو مزید تیز کرنے اور مفید بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا فائدہ تبھی ہوگا جب عوام بیدار ہوں۔ تعلیم، خصوصاً تعلیم نسواں کے تعلق سے حکومتی سطح پر کئی اسکیمیں چل رہی ہیں جس سے لوگ نا آشنا ہیں۔ اس وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ لوگ تکنیک کا استعمال کریں، اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اس جدید دور میں کسی بھی طرح کی جانکاری حاصل کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، صرف بیدار اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ اقلیتی طبقات کو تعلیمی سطح پر مضبوط بنانے اور انھیں روزگار سے جوڑنے کے لئے جہاں وزارت برائے اقلیتی امور، حکومت ہند کی جانب سے اسکالرشپ، فیلوشپ اور مفت تکنیکی تعلیم پر مبنی متعدد اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں، وہیں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند کے ذریعہ بھی تعلیم کو گھر گھر تک پہنچانے کے مقصد سے کئی مفید اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ ان دونوں وزارتوں کی اسکیموں کے تعلق سے تفصیلی جانکاری آپ کو ان کی ویب سائٹ بالترتیب www.minorityaffairs.gov.in اور www.mhrd.gov.in پر حاصل ہو سکتی ہے۔ تعلیم کے تعلق سے مزید لاپروائی اور بے توجہی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے عوام، خصوصاً اقلیتوں، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو منصوبہ بند انداز میں قدم بڑھانا چاہئے۔ ماہرین تعلیم، دانشوروں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کو بھی مشعل راہ کا کردار نبھانا چاہئے۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے: * مسلم سماج اس طرح کی بات ذہن سے نکال دے کہ ’بے روزگار ہیں اس لئے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے‘ یا ’تعلیم نہیں ہے اس لئے روزگار حاصل نہیں ہوتا‘۔ انھیں عزم مصمم کر لینا چاہئے کہ ’ضرورت پڑی تو مٹی، گھاس کھائیں گے لیکن تعلیم کو ترک نہیں کریں گے‘۔ * پسماندہ طبقات اور اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو چند دہائی پہلے تک پڑھنے کے مواقع ہی فراہم نہیں کئے گئے اور نہ ہی ان کے لئے ماحول کو سازگار کیا گیا۔ اس حقیقت سے دانشور حضرات بہ خوبی آشنا ہیں لیکن نہ جانے کیوں یہ بات موضوعِ گفتگو نہیں بنتی۔ اس سلسلے میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ * مسلم اداروں، مکاتب، مدارس وغیرہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی سنٹر کا قیام کیا جانا چاہئے، کیونکہ اس کے بغیر ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتے۔ * ماہرین تعلیم، سیاسی و سماجی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ ایسے پروگراموں سے عوام کو روشناس کرائیں جو حکومت کے ذریعہ تعلیمی، اقتصادی و سماجی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے استفادے کی صورت بھی انھیں بتانی چاہئے۔ * کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے، تنظیمیں بچوں و بچیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لئے اسکالرشپ فراہم کرتی ہیں۔ اس سے متعلق ذمہ داران کو آگے آنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مند بچے استفادہ کر سکیں، اس کی سبیل نکالنی چاہئے۔ تعلیم، خصوصاً خواتین کی تعلیم پر حکومت الگ سے کئی طرح کی اسکیمیں چلا رہی ہے۔ خواتین کو تعلیم یافتہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘، چیمسفورڈ روڈ، نئی دہلی کی کاوشیں بھی قابل ذکر ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کے ذریعہ تعلیمی شعبہ میں کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کو مالی تعاون تو فراہم کیا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ پوسٹ میٹرک حصول تعلیم کے لئے اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والی ہونہار لڑکیوں کو ’مولانا آزاد قومی وظیفہ‘ (Maulana Azad National Scholarship) بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ اسکالر شپ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ میٹرک کے بعد لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے کنارہ کش ہو جاتی ہے۔ اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں، جیسے والدین کی معاشی حالت ٹھیک نہ ہونا، لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کو اضافی بوجھ سمجھنا، تعلیم نسواں کی اہمیت سے ناواقفیت وغیرہ۔ ’مولانا آزاد قومی وظیفہ‘ سے اقلیتی طالبات کو اپنا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ وظیفہ کی رقم فاؤنڈیشن کے ذریعہ بذریعہ چیک طالبہ کے نام جاری کیا جاتا ہے جس سے انھیں کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ حکومتی سطح پر اس طرح کے کئی تعلیمی اور روزگار پر مبنی فلاحی و امدادی اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں جس کے تئیں ہمیں بیدار ہونا پڑے گا۔ اس حقیقت کو شہری کے ساتھ دیہی عوام کو بھی از بر کر لینی چاہئے کہ انسان کی زندگی میں تعلیم کا مقام بہت اونچا ہے۔ تعلیم ہی ہے جو ہماری طرز زندگی کے معیار کو اعلیٰ بنا سکتی ہے۔ ہمیں اگر خود کو مضبوط بنانا ہے تو تعلیم کو بطور ہتھیار اپنانا ہوگا۔ ہمارا یہ قدم نہ صرف ہمارے لئے ترقی کا باعث بنے گا، بلکہ ملک بھی ترقی کی راہ میں نئی منزلیں طے کر سکے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز