نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 عام انتخابات سے قبل جن جن شعبوں کو عروج بخشنے کا وعدہ کیا تھا تعلیم بھی ان میں سے ایک تھا۔ لیکن ہر شعبہ کی طرح تعلیمی شعبہ میں بھی مودی حکومت ’ناکارہ‘ ہی ثابت ہو رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال عالمی بینک کی تازہ جاری رپورٹ ہے جس میں ہندوستان ان بارہ ملکوں میں دوسرے مقام پر ہے جہاں کلاس دوئم کے بچے چھوٹے سے باب کا ایک بھی لفظ نہیں پڑھ پاتے۔ ہندوستان سمیت کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں اپنی تحقیق کے حوالے سے عالمی بینک کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ تعلیم کی موجودہ صورت حال کسی بحران سے کم نہیں ہے۔ عالمی بینک کے تحقیقی رپورٹ کے تفصیلی مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کے پرائمری اور مڈل اسکول بچوں کو بنیادی تعلیم دینے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
’ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ 2018: لرننگ ٹو رئیلائز ایجوکیشن پرومس‘ کے عنوان سے جاری عالمی بینک کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’دیہی ہندوستان میں سوئم درجہ کے تین چوتھائی طلبا دو عدد کے گھٹانے والے سوال کو بھی حل نہیں کر سکتے اور پانچویں درجہ کے تقریباً نصف طالب علم بھی گھٹاؤ کے سوال حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں واضح لفظوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیمی شعبہ میں موجود بحرانی حالت سماجی دوریوں کو کم کرنے کی جگہ مزید بڑھائیں گی جو کسی بھی طالب علم کی ترقی میں حائل ہوں گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تعلیم اچھی طرح دی جاتی ہے تو یہ آگے چل کر روزگار، بہتر آمدنی، اچھی صحت اور غربت سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایسی تعلیم دینا جس میں علم کا عنصر موجود نہیں، مواقع کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکول بنیادی تعلیم کے اہم ذرائع ہیں اور یہاں کسی بھی طرح کی لاپروائی طلبا کے مستقبل پر اثرانداز ہوں گی۔ لیکن حکوم تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ تعلیم کو بہتر کرنے کے نام پر نصابوں میں ایسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جو علم میں اضافہ کی بجائے غلط جانکاریاں فراہم کر رہی ہیں۔ دراصل تعلیم کے تئیں مرکزی حکومت کی بے حسی اور غیر منصوبہ بندی نے پورے تعلیمی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں جب جامعہ سینئر سیکنڈر اسکول میں ہندی کے استاد ڈاکٹر حیدر علی سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’حکومت نے آٹھویں کلاس تک کسی کو فیل نہ کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے اس سےتعلیمی شعبہ کی بنیادہل گئی ہے۔ بچے یہ سوچ کر اطمینان ہو جاتے ہیں کہ آٹھویں تک بغیر محنت کے بھی پاس ہو جائیں گے۔‘‘ عالمی بینک کی رپورٹ پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ ’’کئی اسکولوں میں پچاس ساٹھ بچوں پر ایک ٹیچر ہیں اور کئی جگہ تو اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف ہی نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کے تئیں حکومت کی پالیسی بھی منفی ہے جو اساتذہ کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہیں۔ ان اسباب کو دیکھتے ہوئے پرائمری اور مڈل اسکول میں بہتر تعلیم کی توقع کرنا محض ایک خواب ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined