DW

عربی ’’حلوے‘‘ کے بھوکے جنونی

لاہور میں خاتون پر عربی کیلیگرافی والے لباس پہننے پر توہین مذہب کا الزام، بعد میں الفاظ کی غیر مذہبی نوعیت کی تصدیق ہوئی۔

عربی ’’حلوے‘‘ کے بھوکے جنونی
عربی ’’حلوے‘‘ کے بھوکے جنونی 

بچپن میں سنا تھا کہ برصغیر سے حج اور عمرہ کے لیے سعودی عرب جانے والے لوگ ہر عربی عبارت کو چومتے ہیں چاہے اس کا ترجمہ بیت الخلا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ حقیقت تھی یا من گھڑت لطیفہ مگر عربی زبان سے گہری عقیدت ضرور ایک سچائی ہے۔گزشتہ روز لاہور کے ایک بازار میں ایک خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو کل پورے سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔ اس ویڈیو میں خاتون کو عربی کیلیگرافی والا ایک ڈیزائنر لباس زیب تن کیے دیکھا جاسکتا ہے۔ خاتون کے ارد گرد لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہے اور گرد و نواح اس شور سے گونج رہے ہیں کہ عربی لکھی یہ قمیض پہننا توہین مذہب ہے۔

Published: undefined

خاتون اور ان کے شوہر نے ایک دکان میں پناہ لی اور خاتون اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بس اپنے ناکردہ گناہ کی معافی مانگ رہی ہیں۔ یہ خبر چند ہی منٹوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جائے وقوعہ پر سینکڑوں لوگ جمع ہو گئے۔ اس مشتعل ہجوم میں سے کسی کو پرنٹ کردہ الفاظ کا ترجمہ معلوم نہیں تھا مگر وہ چیخ چیخ کر اس خاتون پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے رہے۔

Published: undefined

پولیس کی آمد سے مشتعل مجمعے کی جنونیت زرا تھمی اور حالات قابو میں آئے۔ خاتون پولیس آفیسر نے با آواز بلند با رہا یقین دہانی کرائی کہ اگر متعلقہ خاتون واقعی توہین مذہب کی مرتکب پائی گئیں تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔ خاتون کو مشکل سے اس مشتعل ہجوم سے بچا کر تھانے لے جایا گیا۔ بعد ازاں ایک معافی کی ویڈیو جاری کی گئی۔ علمائے اکرام نے تصدیق کی کہ یہ الفاظ قرآنی آیات نہیں ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ ان خاتون نے کہا کہ و آئنده ایسا لباس نہیں پہنیں گی اس لیے ان کی معافی بھی قبول کر لی گئی ہے۔

Published: undefined

تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی سامنے آیا کہ یہ شالک ریاض نامی سعودی برانڈ کا لباس ہے۔ اس طرح کے عربی الفاظ کے ڈیزائن عام ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی اب اردو شاعری اور مختلف عبارات کپڑوں پر لکھے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ عربی ایک زبان ہے جو عرب ممالک میں عام لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ ہر زبان کی طرح اس زبان میں بھی شاعری اور موسیقی سے لے کر نازیبا الفاظ تک پائے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب لباس دیکھ کر سعودی برانڈ تک پہنچنے کے لیے صرف چند منٹ درکار تھے تو ان الفاظ کا ترجمہ ڈھونڈنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سینکڑوں کے ہجوم میں سے کسی کے پاس سمارٹ فون نہ ہو اور فوری ترجمہ نہ ڈھونڈا جاسکتا ہو؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ خاتون کے لباس میں سب سے واضح دکھائی دینے والا لفظ "حلوہ" ہے، جس کے معنی حسین خوبصورت اور میٹھے کے ہیں۔ یہ لفظ بذات خود پاکستانیوں کے لیے خاص ناآشنا نہیں ہے لیکن جب سر پر خون سوار ہو تو شاید واقعی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اب اسے جہالت کہیں یا لاعلمی مگر اس نے ایسی غلط فہمی کو ضرور جنم دیا تھا جو ماضی میں بھی بہت سی جانیں لینے کے باوجود سچائی تک پہنچ پائی تھی۔

Published: undefined

کیا ہم نے واقعی ماضی کے تمام واقعات کو بھلا دیا ہے یا ہم کچھ بھی سیکھنے سے عاری ہیں۔ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں پوری کالونی جلانے سے لے کر انفرادی قتل تک ہمیں جھنجوڑ نہیں پائے؟ ڈاکٹر اسرار کہتے تھے کہ جب تک ہم اپنی مقدس کتاب کو صرف چوم چوم کر اونچائی پر رکھنے روز دیں گے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم میں بہتری نہیں آسکتی اور یہ واقعہ بغیر سمجھے جان لیوا عقیدت کی زندہ مثال ہے۔

Published: undefined

والدین، اساتذہ اور میڈیا کو آگاہی پر توجہ دینے کی خاص ضرورت ہے کہ بات سمجھے بنا جذبات سے کام لینا بہت خطرناک ہے۔ علماء کو بھی اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے کہ جہاں مذہب سے عقیدت کا درس دیا جاتا ہے وہیں صحیح غلط کا شعور بھی انتہائی ضروری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ بے بنیاد الزام عائد کرکے انتشار پھیلانے والوں کے لیے سزا ایسی ہو کہ آئندہ کوئی تحقیق کیے بغیر ایسے واویلا نہ مچا سکے۔

Published: undefined

اس واقعے کے بعد خاتون کا معافی مانگنا اور علماء کا قبول کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ لباس پر اگر لفظ خوبصورت لکھا ہو تو کیا معافی اسے مانگنی چاہیے جس نے زیب تن کر رکھا ہے یا اسے جس نے سمجھے بغیر اسے مقدس آیت تصور کیا اور ایک خطرناک صورتحال پیدا کرنے کا مرتکب ہوا؟ صحیح یا غلط کہنا تو شاید مشکل ہو مگر یہ عقلمندانہ عمل ضرور ہے تاکہ عوام کی تسلی ہو سکے اور خاتون کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گذشتہ دنوں سوش میڈیا پر ایک ویڈیو میں کسی نے ذکر کیا تھا کہ بنگلہ دیش میں دیواروں کے ساتھ کوڑا کرکٹ پھینکنا اور مردوں کا دیواروں کا بطور بیت الخلا کے استعمال سے اجتناب کے لیے بنگالی میں عبارات ہر جگہ پائی جاتی تھیں مگر عوام خاص خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ کسی کو یہ ترکیب سوجھی کہ یہ عبارات عربی میں لکھنا شروع کر دیں اور چند ہی دنوں میں خاطر خوا بہتری دیکھنے کو ملی۔ لہذا اس منطق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی جان بچانی چاہیے اور جیسے ان خاتون نے آئندہ ایسا لباس پہنے سے توبہ کی ہے، سب کو ہی کر لینی چاہیے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب پر عمل کرنے والوں سے زیادہ مذہب کے نام پر مارنے والے لوگ حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس قدر ممکن ہو خود سمجھیں اپنی اگلی نسل کو سمجھائیں مگر احتیاط علاج سے بہتر ہے سو جان بچے تو لاکھوں پائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined