پاکستان میں بہت سے لوگ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا انتخابی کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان رہائی پا سکیں گے؟ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور نومنتخب رکن قومی اسمبلی سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملکی انتخابات کے نتائج سے مقتدر حلقوں اور عدلیہ تک واضح پیغام پہنچ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام نے کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ جبر اور نا انصافیوں کے خلاف ووٹ دیا ہے: ''اب عمران خان کے خلاف ناجائز طور پر بنائے گئے مقدمات ختم ہونے چاہییں اور انہیں فوری طور پر رہائی ملنی چاہیے تاکہ وہ جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہوئے ملکی مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اگر عمران خان کو رہا نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہونگے، پارلیمنٹ نہیں چل سکے گی اور ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا۔‘‘
Published: undefined
ایک سوال کے جواب میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان ریاستی سربراہ ہیں وہ آئین کے تحت کسی کی بھی سزا معاف کر سکتے ہیں: 'اگر اصلاح احوال چاہتے ہیں تو عمران خان کی رہائی کی کارروائی فوری طور پر شروع کی جانی چاہیے۔ عدلیہ اور اداروں کو ریاست اور آئین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور قانون کی بالا دستی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
یاد رہے پاکستان میں این آر او کے ذریعے سیاست دانوں کی سزائیں معاف کرنے کی روایت موجود ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بے نظیر بھٹو سمیت بہت سے سیاست دانوں کی سزائیں معاف کی گئی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ڈیل کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی متعدد مقدمات میں بریت حاصل ہو چکی ہے۔
Published: undefined
ایک سوال کے جواب میں لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان کا نظام عدل عوام کی آواز سن کر انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے۔ اور عمران خان کو رہائی نہ مل سکے: ''ہمارے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے، ہمیں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، 342 کا بیان ریکارڈ کیے بغیر سزائیں سنا دی گئیں، ہمارے وکیلوں کو باہر نکال دیا جاتا رہا۔ یہ صورت حال اب جاری نہیں رہ سکتی۔ عدلیہ کا فرض ہے کہ جتنی تیزی سے سزائیں سنائی گئیں تھیں اتنی تیزی کے ساتھ غلطیاں درست بھی ہونی چاہییں۔‘‘
Published: undefined
معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کئی مہینوں کی قید نے بھی ثابت کیا ہے کہ عمران خان ایک مضبوط آدمی ہیں اور وہ کسی ڈیل یا چور دروازے سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا، ''ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے ایک ڈیل ہوتی ہے اور پھر عدالتوں سے لوگوں کو مطلوبہ ریلیف ملتا ہے۔ نیب اپنے الزام واپس لے لیتا ہے، پراسیکیوٹرز بھی مقدمات میں ایسی پوزیشن لیتے ہیں کہ عدالتوں کو انہیں رہا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول عمران خان ملک اور عوام کے خلاف کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہوں گے۔‘‘
Published: undefined
ممتاز تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس طرح کے عوامی (انتخابی) فیصلے سے ہر ادارہ متاثر ہوتا ہے اور عوام کی اتنی بڑی اکثریت کی رائے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے: ''پاکستان جیسے ملک میں چہرے اور حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ اب الیکشن سے پہلے کی طرح کی صورتحال کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی والے اب چپ کر کے نہیں بیٹھیں گے اور ان کے دباؤ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آہستہ اہستہ صورتحال میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی لیکن عمران خان کی رہائی میں ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بابر سہیل نے بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کیا کہ وہ تمام مقدمات جو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر جلد بازی میں بنائے گئے تھے وہ عدالت کے سامنے برقرار نہیں رکھے جا سکیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں بابر سہیل نے بتایا کہ پاکستان میں بڑے عرصے بعد یوں لگا ہے کہ بیلٹ کو بُلٹ پر برتری ملی ہے اور ساری مشکلات کے باوجود عوام کا ووٹ بیلٹ بکس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ہے: ''اب مصنوعی ڈیزائننگ زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی ووٹرز نے بڑی میچورٹی کا مظاہرہ کیا ہے اب ان کی آواز سننی پڑے گی۔ 2013ء میں چار حلقوں کی دھاندلی نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا اب 60 حلقے کیسے ہضم ہو سکیں گے۔ اب سب کو ڈائیلاگ کی طرف آنا ہوگا اگر بات چیت شروع ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں عمران خان کو ریلیف ضرور ملے گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined