پاکستانی سیاسی حلقوں میں یہ بات خاص طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ خوش خوراک، خوش پوشاک اور ہشاش بشاش طبیعت کی شہرت رکھنے والے سابق ملکی وزیر اعظم نواز شریف آج کل کسی بھی عوامی تقریب میں بظاہر خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ایک ایسا سیاست دان جس کے بھائی کو وزارت عظمیٰ ملی ہو اور جس کی بیٹی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن چکی ہو، اس کا لوگوں سے میل جول سے گریز، بات چیت نہ کرنا، ہر وقت چہرے پر افسوس اور بہت سنجیدہ کیفیات کا طاری رہنا بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔
Published: undefined
حال ہی میں شہباز شریف اور مریم نواز کی حلف برداری کی تقاریب اور قومی اسمبلی میں نومنتخب اراکین کی حلف برداری کے موقع پر میاں نواز شریف کی جو تصاویر سامنے آئیں، ان میں بظاہر بے بسی اور دکھ کے جذبات نمایاں تھے اور بقول شخص کے آج کل نواز شریف کی باڈی لینگوئج کسی ہارے ہوئے آدمی کی باڈی لینگوئج جیسی دکھائی دیتی ہے۔
Published: undefined
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین اور ممتاز ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر خالد رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی سیاسی رہنما کی کمیونیکیشن میں اس کی باڈی لیگوئج کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اچھی باڈی لینگوئج اس کے کارکنوں میں جوش ،امید اور جذبہ پیدا کرتی ہے جبکہ کسی بھی لیڈر کی کمزور باڈی لینگوئج اس کےکارکنوں کو کوئی اچھا پیغام نہیں دیتی۔
Published: undefined
ان کے بقول تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کسی بھی لیڈر کو سننے والے اس لیڈر کی بات پر صرف تیس فیصد توجہ دیتے ہیں جبکہ ان کی ستر فیصد توجہ اس رہنما کی باڈی لینگوئج، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی حرکات و سکنات پر ہوتی ہے۔ ''اگر کوئی شخص کم گو ہو جائے، لوگوں سے ملنے سے گریز کرے، یا اس کا چہرہ سپاٹ ہو کرجذبات سے عاری لگنے لگے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا دل اور دماغ اس کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘
Published: undefined
ڈاکٹر خالد رسول کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے چہرے کے دکھ بھرے حالیہ مناظر ملک میں کئی جگہ نوٹ کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق لگتا یہ ہے کہ نواز شریف جن توقعات کو لے کر لندن سے آئے تھے، وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ ''پاکستان کو نواز دو ‘‘ کے نعرے کے ساتھ انتخابی مہم میں ان کو استعمال کرکے کامیابی کے بعد ان کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم نہیں بنایا گیا۔ شاید ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ شہباز شریف کے مقابلے میں ان کے اتحادیوں، اسٹیبلشمنٹ اور ان کی پارٹی کے کچھ افراد کے نزدیک نواز شریف کو زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں محمد نواز شریف پر 'کراس لگانے والوں‘ میں کچھ بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں۔ ‘‘
Published: undefined
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد رسول کے الفاظ میں، ''اس ساری صورت حال نے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ نواز شریف بنیادی فیصلہ سازی سے باہر ہو چکے ہیں۔ ان کا دور گزر چکا ہے، سبھی ہجوم اب اپنے چہرے چڑھتے سورج کی طرف کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے نواز شریف اب دکھی اور غمگین دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ آج کل میاں نواز شریف کی باڈی لینگوئج ان کی روایتی شخصیت کا ساتھ نہیں دے پا رہی اور وہ اپنے 'دکھ درد‘ کو کوشش کر کے بھی چھپانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔
Published: undefined
سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک تو نواز شریف کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں وہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ دوسرے یہ کہ جنہوں نے اقتدار ان کی جماعت کو دلوایا، اب مرضی بھی انہی کی چل رہی ہے۔ نواز شریف کو اپنے مزاج کے خلاف سمجھوتے کی سیاست کرنا پڑ رہی ہے۔ ان کی بے بسی یہ ہے کہ ان کے پاس اس صورت حال کو بدلنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔ ان کو اس بات پر غصہ بھی ہے کہ خود ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں نے بھی ان کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ اس ساری صورت حال میں اب ان کے پاس کہنے کو زیادہ کچھ نہیں اور وہ خاموشی کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
نواز شریف کے قریبی رفیق کار اور مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور نواز شریف کی متعلقیت اب بھی قائم ہے۔ عرفان صدیقی نے بتایا کہ شریف فیملی اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں انہی کے پاس ویٹو پاور ہے، مستقبل کے اہم فیصلے بھی انہی کی مرضی سے ہوں گے۔ ان کی سفارش پر ہی شہباز شریف وزیر اعظم اور مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں۔ ان کی عمر اور صحت کی صورت حال ایسی ہے کہ وہ جلسوں، گلیوں اور سڑکوں کی سیاست نہیں کرنا چاہتے اور اسی لیے اب وہ اپنے نئے رول میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
Published: undefined
عرفان صدیقی کا اصرار تھا کہ نواز شرف پاکستان آنے سے پہلے ہی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ''اصل بات یہ ہے کہ والد، والدہ اور اہلیہ کی وفات کے صدمات سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ یہ صدمات جن حالات میں انہوں نے جھیلے، خاص طور پر اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر گرفتاری کے لیے پاکستان چلے آنا اور مرحومہ کے آخری لمحات میں ان کو اپنی اہلیہ کی بیمار پرسی کے لیے ٹیلی فون کرنے تک کی اجازت بھی نہ ملنا، نواز شریف ابھی تک یہ سب کچھ بھول نہیں پائے۔ اسی طرح ترقی کرتا ہوا ملک پاکستان پچھلے چند سالوں میں جن مسائل کا شکار ہوا، وہ بھی نواز شریف کے لیے بڑی تشویش کی بات ہے۔‘‘
Published: undefined
لاہور کے ایک رہائشی مزمل حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کی تشویش کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن پہلے جب نواز شریف ایوان صدر میں شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے اور تقریب کے بعد صدر آصف علی زرداری سے بھی ملے، تو نواز شریف نے انہیں ملک اور قوم کا خیال رکھنے کی تلقین نہیں کی تھی بلکہ شہباز شریف کا بازو پکڑ کر صدر آصف زرداری سے کہا تھا کہ اب انہوں نے شہباز شریف کا خیال رکھنا ہے۔ ''شاید انہیں یہ خوف تھا کہ ان کا بھائی اب ایسے لوگوں کے ساتھ چلا گیا ہے، جن کی دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined