پاکستان میں قومی اسمبلی کی عام نشستوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں پر بھی اپنے امیدواروں کے نام دیتی ہیں۔ ملک کی ہندو برادری کے نچلے طبقات کا شکوہ ہے کہ اس میں نچلے طبقات کو مناسب جگہ نہیں دی جاتی۔نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، پاکستان تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر اونچی ذات کے ہنددوں کو بڑے پیمانے پر جگہ دیتی ہیں لیکن وہ نچلی ذات کے سیاسی کارکنان کو اہمیت نہیں دیتی۔ واضح رہے پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کوسیاسی جماعتیں نامزدگی کے ذریعے پر کرتی ہیں۔
Published: undefined
تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے سے نچلی ذات کے ہندوؤں کے مقابلے میں اعلی ذات کے ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان میں ہندو برادری کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نچلی ذاتوں پر مشتمل ہے۔ لیکن جب مختص سیٹوں پر حصہ دینے کا وقت آتا ہے تو ہمیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔"
Published: undefined
رادھا بھیل کے مطابق چونکہ ان اونچی ذاتوں کے ہندو زیادہ تر کاروباری ہوتے ہیں۔ ”تو وہ یہ مخصوص نشستیں لیتے وقت اچھے خاصے پیسے خرچ کرتے ہیں اور اقتدار میں آ کر زیادہ تر کاروباری معاملات، لائسنسز کے اجرا اور دوسرے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ برسوں سے اونچی ہی ذات کے لوگ اراکین اسمبلی بنتے چلے آرہے ہیں۔"
Published: undefined
یہ صرف نچلے طبقات کے لیے جدوجہد کرنے والی رادھا بھیل کا ہی دعوی نہیں ہے بلکہ کراچی سے تعلق رکھنے والی صحافی وینگس بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کو سیاسی طور پر بہتر نمائندگی نہیں ملتی۔ وینگس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”نچلی ذات کے ہندو جیسے باگڑی، بھیل، کوہلی، اوڈ وغیرہ کو قومی اسمبلی، سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں مناسب نمائندگی نہیں ملتی۔"
Published: undefined
وینگس کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دوسری بڑی جماعتیں دولت مند اور اونچی ذات کے ہندوؤں کو ترجیح دیتی ہیں۔ ”ہندو کمیونٹی سے سیاسی افق پر جو اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی میں چھائے ہوئے ہیں وہ آپ کو ہر جگہ نظر آتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مکیش چاولہ، کھیل داس کو ہستانی وغیرہ وغیرہ۔ نچلی ذات سے صرف کرشنا کوہلی اور کچھ دوسرے لوگوں کو مخصوص نشستوں پر بھیجا گیا۔" وینگس کا کہنا تھا کہ عام نشستوں پر پی پی پی نے ہندو کمیونٹی سے لوگوں کو انتخابات میں کھڑا کیا ہے۔ ”لیکن ان امیدواروں کا تعلق بھی اونچی ذات سے ہے۔"
Published: undefined
تاہم پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ڈاکٹر چھابڑیا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”حقیقت یہ ہے کہ نچلی ذات کہ ہندوؤں میں سے جو اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی بنے یا سینیٹ میں گئے۔ انہوں نے کبھی بھی کمیونٹی کے مسائل پر کھل کر بات نہیں کی۔ مثال کے طور پر جبری طور پر تبدیلی مذہب کے مسئلے کو ہی لیں۔ حالانکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر نچلی ذات کے ہندو ہوتے ہیں لیکن اس مسئلے پر سب سے زیادہ آواز رمیش کمار وانکوانی اور رانا چندر سنگھ نے اٹھائی جن کا تعلق اونچی ذاتوں سے ہے۔"
Published: undefined
ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کے مطابق ہندو کمیونٹی کو بہت سارے ایسے مسائل کا سامنا ہے جس پر بولنے کے لیے بہت جرات کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ داو پہ لگانا پڑتا ہے۔ ”کیونکہ نچلے طبقات سے آئے ہوئے لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ ہندو کمیونٹی کے مجموعی مسائل پر ڈر اور خوف کے مارے کھل کے بول نہیں پاتے۔"
Published: undefined
ڈاکٹر جے پال کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی پانچ فیصد مخصوص نشستیں ہیں جبکہ یہی تناسب صوبائی اسمبلیوں میں بھی ہے۔ ”تاہم سندھ کے علاوہ کوئی بھی اسمبلی اس کوٹے کو موثر انداز میں پورا نہیں کرتی۔اس کے علاوہ سینیٹ میں ہر صوبے سے ایک ایک اقلیتی رکن ہوتا ہے۔"
Published: undefined
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے پانچ فیصد مخصوص نشستوں پر اقلیتوں میں سے کسی بھی رکن کو پارٹی قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان مخصوص نشستوں میں مزید یہ کوٹا نہیں ہے کہ اس میں سے ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں، مسیحیوں یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کتنی کتنی نشستیں دی جائیں۔ یہ ہر سیاسی جماعت پہ منحصر ہے کہ وہ جس کو چاہتی ہے اسے انتخابات کے فارم جمع کراتے وقت نامزد کر دیتی ہے۔"
Published: undefined
ایوب ملک کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کے علاوہ اقلیتوں کے کارکنان کو بڑے پیمانے پر عام نشستوں سے بھی ٹکٹ دیا جانا چاہیے۔ رادھا بھیل کا کہنا تھا کہ اس کا حل آسان ہے۔ ”ہندووں کی مجموعی آبادی میں نچلی ذات کے ہندووں کی شرح آسانی سے معلوم کی جا سکتی ہے اور پھر سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اسی شرح سے مخصوص نشستوں پر نامزدگی کریں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined