امریکہ کی طرح جرمنی بھی سالانہ ورلڈ ہیپی نیس رینکنگ میں پیچھے چلا گیا ہے۔ خاص طور پر ان معاشروں میں نوجوان اس طرح خوش و خرم دکھائی نہیں دیتے جیسا کہ وہ ماضی میں ہوا کرتے تھے۔ ایسا کیوں ہے؟ایک طرف تو فن لینڈ ''ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ‘‘ میں درجہ بندی میں سر فہرست ہے، دوسری جانب جرمنی اس فہرست میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
Published: undefined
ایسا نہیں ہے کہ جرمنی میں لوگ پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ ناخوش ہوئے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ دوسری جگہوں کے لوگ اس معاملے میں ان سے آگے نکل گئے ہیں۔ تازہ ترین ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں جرمنی 24 ویں نمبر پر ہے اور اگر 30 سال سے کم عمر کے لوگوں کی فہرست میں دیکھا جائے تو جرمنی 47 ویں نمبر پر ہے۔ ایسا ہی رجحان امریکہ میں دیکھا گیا ہے، جو مجموعی طور پر 23 ویں نمبر پر ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نوجوانوں میں نمایاں ناخوشی کی وجہ سے ٹاپ 20 سے باہر ہو گیا ہے۔ جبکہ کوسٹا ریکا اور کویت ٹاپ 10 ممالک میں شامل کیے گئے ہیں۔ ٹاپ 10 میں صرف ہالینڈ اور آسٹریلیا ہی وہ ممالک ہیں جن کی آبادی 15 ملین سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
شمالی جرمنی کی کنسٹرکٹر یونیورسٹی بریمن سے منسلک سماجی امور کی ایک ماہر ہلکے بروکمن اس بارے میں کہتی ہیں، ’’جرمن عوام دیگر ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں جنگ کے بارے میں زیادہ حساس ہیں جس کی وجہ ان کی تاریخ ہے۔‘‘ ہلکے بروکمن کا مزید کہنا تھا،'' شاید اس وجہ سے ہی جرمنوں میں خوف پایا جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
اس سال کی یہ مذکورہ رپورٹ دراصل 2021 ء سے 2023 ء تک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ اس عرصے میں وبائی امراض کے کچھ سال اور روس کی طرف سے یوکرین پر کیے گئے حملے جیسے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ریسرچر ہلکے بروکمن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''آپ کو اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جرمن ریاست کوئی خاص سخی نہیں۔ جرمنی نے کفایت شعاری کی جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے وہ یقینی طور پر عوامی خوشی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا موازنہ اسکینڈینیوین اور نورڈک ممالک سے کریں جہاں سماجی تحفظ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس طرح ایک قسم کی بنیادی یکجہتی پیدا ہوتی ہے جس کی جرمنی جیسی قدامت پسند فلاحی ریاستوں میں کسی حد تک کمی پائی جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
اس سال کی ورلڈ ہیپی نیس رینکنگ رپورٹ میں عمر کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ جرمنی، ناروے، سویڈن، فرانس، برطانیہ اور اسپین میں بوڑھے اب نوجوانوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ خوش نظر آتے ہیں، جبکہ پرتگال اور یونان میں یہ پیٹرن اس کے برعکس ہے۔
Published: undefined
یہ نتائج ایک عرصے سے پائے جانے والے اس مفروضے کے بالکل مختلف ہیں جس کے تحت یہ سمجھا جاتا تھا کہ نوجوان لوگ زیادہ خوش ہیں اور ان کی خوشی زندگی کے بعد کے حصے میں ختم ہو جاتی ہے کیونکہ انہیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کی زندگی سے توقعات پوری نہیں ہوئیں۔
Published: undefined
ماہر عمرانیات بروک من کا مشاہدہ ہے کہ مضبوط پارٹنرشپ انسانوں کی خوشی میں اضافہ کرتی ہے اور جوں جوں انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے پارٹنر شپ مستحکم اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2012ء کے بعد سے سالانہ بنیادوں پر شائع ہوتی ہے۔ تب اقوام متحدہ نے بھوٹان کی طرف سے عوامی خوشی پر بہت زیادہ زور دیے جانے کے بعد 20 مارچ کو خوشی کا عالمی دن قرار دے دیا تھا۔
Published: undefined
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جانب سے مرتب کی گئی ہے اور سروے کروانے والے امریکی معروف ادارے گیلپ کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ گیلپ نے 143 ممالک اور خطوں کے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی اپنی زندگیوں کا موازنہ کریں اور اس کا جائزہ صفر تا دس کے ایک اسکیل پر لیا جائے اور زندگی اور خوشحالی کو پرکھنے کے اس پیمانے میں فی کس جی ڈی پی، سماجی مدد، متوقع صحت مند زندگی، آزادی، سخاوت اور بدعنوانی جیسے عوامل کو مدنظر رکھا جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز