افرادی قوت کی عمر بڑھنے سے عمر کی بنا پر تعصب بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ خواتین کی عمر ڈھلنے کے ساتھ ہی انہیں نہ صرف کم جاذب نظر تصور کیا جاتا ہے بلکہ ان کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا جاتا ہے۔دنیا بھر میں عوامی و سیاسی زندگی میں خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر گہرے آثار ملتے ہیں۔ مگر عمر کی بنا پر تعصب کا معاملہ جداگانہ نوعیت کا ہے۔ جنوبی ایشیا میں عمر رسیدہ خواتین کے حقوق اور سماجی تحفظ کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔
Published: undefined
دراصل قیام پاکستان سے ہی ایک محاورہ زبان زد عام ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں مرد اخلاقی اتھارٹی اور سماجی استحقاق کے شعبوں پر براجمان ہیں۔ اس محاورہ کو کس نے وائرل کیا معلوم نہیں مگر عمررسیدہ خواتین ان دقیانوسی تصورات سے سب سے ذیادہ منفی طور پر متاثر ہوتی ہیں۔
Published: undefined
پاکستانی معاشرہ میں اگر آپ اپنے سوشل سرکل میں بڑی عمر کے دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص خواتین، تو آپ کی کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ ہمارے سماج میں لوگ جوانی اور خوبصورتی کی پوجا کرتے ہیں۔ عمر رسیدہ خواتین کے مسائل سنگین اور کثیر الجہتی ہیں۔
Published: undefined
عمومی طور پر لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ عمر رسیدہ خواتین کے مسائل درحقیقت کیا ہیں؟ یہاں مار کٹائی، تشدد کی بات کی جاتی ہے مگر لوگوں کو ادراک نہیں کہ تشدد صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ دوران ملازمت یکساں سلوک روا نہ رکھنا، انہیں سوسائٹی میں نظر انداز کرنا بھی نفسیاتی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔
Published: undefined
آج کے سخت مقابلے والے دور میں بڑی عمر کی خواتین کے لیے نوکری حاصل کرنا اور اسے بچائے رکھنا بہت ہی مشکل ٹاسک ہو گیا ہے۔ اسی نوکری پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی غرض سے کی جانے والی تگ ودو بعض افراد کو ہضم نہیں ہوتی اور شروع ہوجاتی ہے"آفس پالیٹکس"۔
Published: undefined
جاب پلیس پر اول تو ڈھلتی عمر کی خاتون کو دیکھ کر اس کے ہیئر سٹائل، ہیئر کلر، ہیئر کٹنگ، جوتے، بیگ کولیکشن، لپ اسٹک اور لباس پر چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ان پر زبردستی سنجیدگی کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے۔ جہاں عورت نے 40 کی حد عبور کی، اس ٹرننگ پوائنٹ پہ معاشرے کے خاص سلوک کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بہت بار ایسا ہوا ہے کہ عمر رسیدہ خواتین آفس میں اپنے کام اور اس کام کے لیے مل رہی تنخواہ سے تو مطمئن ہوتی ہیں لیکن وہاں چل رہی سیاست سے اتنا دلبرداشتہ ہوجاتی ہیں کہ نئی نوکری تلاش کرنے لگتی ہیں۔ ذہنی سکون کی خاطر ایسی بہت سی خواتین کم ترین اجرت والی نوکریاں تلاش کرتی ہیں جنہیں بہتر فوائد کے ساتھ کام مل سکتا ہے۔
Published: undefined
آفس اسٹاف بسا اوقات ایجڈ خواتین کو کم علم اور ٹیکنالوجی میں اپ ٹو ڈیٹ نہیں سمجھتے اور انہیں کنفیوژ کرنے کی غرض سے بار بار ایسا تاثر پیش کیا جاتا ہے۔ حتی کہ چالیس بیالیس سال کی عمر کی خواتین بھی خود یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اب نیا کام نہیں سیکھ سکتیں اور سیکھنے کا رسک لینے کو بھی تیار نہیں ہوتیں۔ اگر کوشش کر بھی لیں تو انہیں تمسخر و تضخیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نیز بڑھتی عمر کی خواتین کو دوران ملازمت زیادہ تر یہی شکایات رہتی ہیں کہ کم عمر خواتین یا مردوں کو زیادہ اہم کردار مثلاً مینجمنٹ، سیلز،مارکیٹنگ وغیرہ ملتے ہیں جبکہ عمر رسیدہ خواتین صرف آفس اسسٹنٹ، کلرک یا دیگر ماتحت کرداروں میں ہی رہتی ہیں خواہ ان کا تجربہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔
Published: undefined
جیسے ہی خواتین کے چہرے پر سنجیدگی آنے لگتی ہے، کام کی جگہ پر خواتین کو اکثر 'نان پروموٹیبل' کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جسے 'آفس ہاؤس ورک' کہا جاتا ہے یعنی ایسے کام کرائے جاتے ہیں جن پر کوئی شاباش نہیں ملتی۔ بہت ساری ایجڈ خواتین کا گلہ ہے کہ جب وہ خوب دکھائی دیتی تھیں ان کے ذمے آفس کا انتظام و انصرام تھا لیکن جیسے ہی بالوں میں سفیدی آئی دفتری اوقات میں مہمانوں کی کافی بنانا، کھانا گرم کر کے باس کے سامنے پیش کرنا اور اپنے آفس کے برتن خود دھونا، جیسے ثانوی کام انہیں سونپ دیے جاتے ہیں۔
Published: undefined
اگر عمر رسیدہ خواتین 'ایبسلوٹلی ناٹ' کا سائن دیتی ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ تم نان پروفیشنل، سخت مزاج اور مغرور ہو اس لیے تمہاری شادی نہیں ہوئی۔ آفس کی ساکھ پر ذرا سی آنچ آئے یا اونچ نیچ ہو تو دفتر کی عمر رسیدہ ملازم خواتین کا احتساب شروع ہوجاتا ہے اور سب سے پہلے انہیں نوکری سے برخاست کیا جاتا ہے یا بہانے بہانے سے ان کی ترقی روک دی جاتی ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں ایک چیز جو بڑھتی عمر کی خواتین کے لیے ڈپریشن کا بڑا سبب ہے وہ یہ کہ ان کی ٹرانسپورٹ تک رسائی کو ممکن نہیں بنایا جاتا۔ مجبوراً غیر محفوظ لوکل بسوں پر انہیں مردوں کے ساتھ والی سیٹ پر سفر کرنا پڑتا ہے، اگر مردوں کے ساتھ نہ بیٹھنے پر استفسار کیا جائے تو کنڈکٹرز یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ 'تعجب ہے باجی! اس عمر میں لڑکی بن بن بیٹھنا زیب نہیں دیتا'۔
Published: undefined
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر معاشرے میں خواتین کو عمر اور جنس کی دو دھاری تلوار کا سامنا یونہی برقرار رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ تعصب کی بنا پر سینیئر تجربہ کار خواتین فن اور مہارت اپنے جونیئرز کو منتقل کرنے سے گریز کریں گی۔ یوں جونیئرز میں انفارمیشن ہی بچے گی اور تجربہ نام کی چیز نہیں ہو گی۔ نتیجتاً ترقی پذیر ممالک مزید انحطاط اور جمود کا شکار ہو جائیں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 'ایج از جسٹ آ نمبر'، یعنی اگرانسان چاہے تو ہرعمرمیں خوش مزاج اور خوبصورت لگ سکتا ہے۔ یہ صرف اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ کیسا طرزِ زندگی اپناتا ہے۔
Published: undefined
بڑھتی عمر کے ساتھ خواتین میں تبدیلیاں رونما ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن خواتین عمر کے معاملے میں حساس ہوتی ہے۔ انہیں اوور ایج کہہ کر ان کی قابل ذکر خدمات کو فراموش کر دینا ایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس سے احتراز ازحد ضروری ہے۔ ہمیں فرسودہ سوچ کو بدلنا ہو گا۔ عورت عمر رسیدہ ہو یا جوان اسے زندگی کے دن گن گن کر گزارنے کی بجائے انہیں کھل کر جینے کا حق دیا جائے ورنہ تصویرِ کائنات کا رنگ ناتمام رہے گا۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined