DW

چھاپے اور بلیک آوٹ کی گونج: ذمہ دار کون ہے؟

سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کو قبول نہیں کیا جا سکتا جب کہ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے سیاست دانوں میں تلخیاں بڑھیں گی۔

چھاپے اور بلیک آوٹ کی گونج: ذمہ دار کون ہے؟
چھاپے اور بلیک آوٹ کی گونج: ذمہ دار کون ہے؟ 

محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپا اور عمر ایوب کی تقریر کا بلیک آؤٹ پاکستان کے کئی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال ملک میں بڑھتے ہوئے فاشسٹ رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپا اور عمر ایوب کی تقریر کا بلیک آؤٹ حیسے واقعات سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ طاقتور ریاستی عناصر کو شہباز شریف کی حکومت میں کھلی چھوٹ ملنے جا رہی ہے۔

Published: undefined

سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اسے واقعات کو قبول نہیں کیا جا سکتا جب کہ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے سیاست دانوں میں تلخیاں بڑھیں گی اور ملک کی سیاسی صورت حال اور طوفانی ہو جائے گی۔ تاہم خوش امید تجزیہ نگار اس کو وقتی ابھار قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں حالات کچھ وقت کے بعد بہتر ہوجائیں گے۔

Published: undefined

چھاپے پر موقف

پاکستان تحریک انصاف اور دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے نامزد کردہ صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کے گھر پر اتوار کی رات چھاپہ مارا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی نے سرکار کی زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اس حوالے سے بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد اچکزئی نے اس تاثر کوبالکل غلط قرار دیا ہے کہ محمود خان اچکزئی سے کوئی انتقام لیا جا رہا ہے یا ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی ہے۔

Published: undefined

جان محمد اچکزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''زمینوں کو چھڑوانے کا آپریشن کچھ ہفتوں سے چل رہا تھا۔ محمود خان نے ڈھائی کنال زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا، جس کو چھڑانے کے لیے مقامی انتظامیہ نے آپریشن شروع کیا۔‘‘

Published: undefined

تقریر کا ردعمل

تاہم پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اس تاثر کو بالکل رد کرتی ہے اور وہ اسے انتقامی کاروائی قرار دیتی ہے۔ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک رہنما عبدالرحیم زیارت وال نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''محمود خان اچکزئی نے جمعہ کو تقریر کرتے ہوئے آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے چہروں سے نقاب اتار دیا تھا۔ یہ چھاپہ بنیادی طور پر اسی کا ردعمل ہے اور طاقت ور ریاستی عناصر کا کام ہے۔‘‘ عبدالرحیم زیارت وال کے مطابق صرف گھر پہ ہی چھاپہ نہیں مارا گیا، ''بلکہ پارٹی کے ایک رہنما کے شو روم کو بند کردیا گیا ہے جبکہ پارٹی کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول کا بھی محاصرہ کیا گیا۔‘‘

Published: undefined

کھلی چھوٹ کے اشارے

کچھ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ عمر ایوب کی تقریر کے بلیک آؤٹ اور چھاپے دونوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کے دوران جاسوسی اداروں کو کھلی چھوٹ کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی اور محمود خان دونوں ہی جی ایچ کیو کے خلاف ہیں، تو کارروائی پھر اور کس کے اشارے پر ممکن ہے؟‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق یہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جاسوسی داروں کو کھلی چھوٹ ملنے جا رہی ہے، ''جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھیں اور اس سے سب سے زیادہ بدنامی خود مسلم لیگ نون اور شہباز شریف کی حکومت کی ہو گی۔‘‘ پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ریحان اشرف کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو فاشسٹ طریقے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنائے گئے تھے، اب وہ اسلام آباد بھی پہنچ رہے ہیں۔

Published: undefined

ریحان اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمر ایوب کی تقریر کا بلیک آؤٹ وہی قوتیں کر سکتی ہیں جو طاقتور ہیں اور یہ بڑا واضح ہے کہ محمود خان اچکزئی کو کس نے ٹارگٹ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کسی لگی لپٹی کے بغیر فوج کے جرنیلوں پر رشوت لینے اور انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا تھا۔‘‘

Published: undefined

کچھ سیاسی کارکنان کا خیال ہے کہ کیونکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس لیے ان واقعات سے سیاسی جماعتوں میں بھی تلخیاں بڑھ سکتی ہیں۔ بلوچستان کی سابق رکن اسمبلی یاسمین لہڑی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلوچستان میں پہلے ہی غصہ بہت زیادہ ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی ہے، جس پر پورا صوبہ احتجاج بنا ہوا ہے۔ اچکزئی کے گھر پر چھاپہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔‘‘

Published: undefined

اس سیاسی صورتحال پر کئی مبصرین مایوس نظر آتے ہیں۔ تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے، ''یہ ایک مثبت بات ہے کہ جو شور شرابہ، احتجاج اور غصہ سڑکوں پہ نکل رہا تھا، اب وہ ایوان تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی کچھ دن جذباتی تقریریں ہوں گی لیکن بعد میں سب ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان بھی یہی چاہیں گے کہ ماحول ٹھنڈا ہو اور وہ اس حوالے سے کام بھی کریں گے۔‘‘

Published: undefined

پی پی پی کا مؤقف

پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کر سکتی، جس کا مقصد آزادی اظہار رائے کو دبانا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے پہلے ہی بلیک آؤٹ کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے اور مسئلہ حل ہو چکا ہے۔‘‘

Published: undefined

نفیسہ شاہ کے مطابق بدقسمتی سے یہ سلسلہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ہی شروع ہوا تھا، '' اس دور میں پاکستان ٹیلی ویژن کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ حزب اختلاف کی کوریج نہ کریں۔ تاہم موجودہ ڈپٹی اسپیکر نے وزارت اطلاعات کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ حزب اختلاف کی مناسب کوریج کو یقینی بنائیں۔‘‘ اچکزئی کے گھر پہ چھاپے کے حوالے سے نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی اس کی مذمت کر چکے ہیں، ''سیاسی قائدین کے گھر پر کوئی بھی چھاپہ کسی بھی طور پر ناقابل قبول ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined