آٹھ فروری کو طے پاکستان کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان سمیت پاکستانی سیاست کے کئی اہم چہرے نظر نہیں آئیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اہم امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نو مئی کے حوالے سے ان پر ہونے والے مقدمات اور ان کے روپوش ہونے کی وجہ سے ان انتخابات میں حصہ نہیں لے پائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے لاہور اور میاںوالی کے دونوں حلقوں سے کاغذات نامزدگی منظور نہیں کئے گئے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الہی اور ان کے صاحب زادے چوہدری مونس الہی کو بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔ پی ٹی آئی کے دو اور مرکزی رہنما اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ بھی پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے الیکش سے باہر ہیں۔
Published: undefined
پی ٹی آئی کے دیگر رہنما، اعظم سواتی، مراد سعید، زلفی بخاری، حماد اظہر، عمر ڈار اور صنم جاوید کو بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔ حکومتی دباؤ کے باعث پاکستان تحریک انصاف چھوڑ جانے والوں میں سے اسد عمر، عامر کیانی، علی نواز اعوان، صداقت عباسی، علی زیدی، خسرو بختیار، عمران اسماعیل، فرخ حبیب، جمشید چیمہ اور مسرت جمشید چیمہ بھی ان اانتخاب میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھنے والے فیصل واڈا بھی ان انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اپنے کاغذات واپس لے کر الیکشن سے دستبردار ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
الیکشن میں حصہ نہ لینے والوں کا سلسلہ صرف پاکستان تحریک انصاف تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجہ سے ان انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔ نون لیگ کے ایک اور سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اس مرتبہ الیکشن میں امیدوار نہیں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما طلال چوہدری پی ٹی آئی کے ایک منحرف رہنما کو ٹکٹ دیے جانے پر الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں جبکہ نون لیگ کے ایک اور رہنما دانیال عزیز پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنی علالت کی وجہ سے ان انتخابات میں شریک نہیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری اور آصفہ بھٹو زرداری بھی ان انتخابات سے باہر ہیں۔ سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا تعلق تو پاکستان مسلم لیگ قاف سے ہے لیکن وہ بلاول بھٹو کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس الیکشن میں حصہ لینے سے گریز کیا ہے۔
Published: undefined
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو بھی ان کی توقعات کے برعکس نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملا ہے بلکہ پی ٹی آئی نے ان کے مقابلے پر اپنا امیدوار بھی کھڑا کر دیا ہے۔ شیخ رشید قلم دوات کے نشان پر راوالپنڈی سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
Published: undefined
ان انتخابات میں حصہ لینے والے اہم رہنماؤں کی بڑی تعداد لاہور شہر سے الیکشن لڑ رہی ہے جہاں پر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، میاں محمد شہباز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور عطا تارڑ کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، استحکام پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان، عون چوہدری اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سردار لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ، سابق گورنر میاں محمد اظہر، میاں محمود الرشید اور ڈاکٹر یاسمین راشد الیکشن لڑ رہی ہیں۔
Published: undefined
پاکستان تحریک انصاف کو اس الیکشن میں پارٹی کا انتخابی نشان تو نہیں مل سکا لیکن اس جماعت کے لوگ مختلف نشانات پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر یاسمین راشد، عاطف خان، مہر بانو قریشی، زین حسین قریشی، شعیب شاہین، اسد قیصر، شہرام ترکئی، شہریار آفریدی، شیر افضل مروت، عمر ایوب اور ریحانہ امتیاز ڈار بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، قمر الزماں کائرہ، چوہدری منظور احمد، راجہ پرویز اشرف، ندیم افضل چن، سید یوسف رضا گیلانی، سید نوید قمر، مرزا اختیار بیگ، شازیہ مری اور سید خورشید شاہ بھی میدان میں ہیں۔ دینی جماعتوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، لیاقت بلوچ، حافظ نعیم الرحمن، اویس نورانی اور سعد رضوی اس الیکشن میں شامل ہیں۔ اس الیکشن میں خالد مگسی، جام کمال، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پرویز خٹک اور اعجاز سنجرانی بھی حصہ لے رہے ہیں۔
Published: undefined
ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم بھی بہاولنگر کے علاقے سے ان انتخابات میں شریک ہیں۔ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے بتایا کہ ان کے 90 فیصد مرکزی رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی بیورو کریسی نے شروع میں ہی مسترد کر دیے تھے تاہم بعد میں الیکشن ٹربیونل سے کچھ ریلیف ملا۔ ان کے بقول کاغذات نامزدگی چھیننے اور انتخابی نشان لے لینے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانی کی اجازت نہیں دی جا رہی: ''ہم بینر لگاتے ہیں تو وہ اتار لیے جاتے ہیں۔ کارنر میٹنگ کریں تو عدالتوں سے عمران خان سے ملاقات کے لیے سات آٹھ اجازت نامے موجود ہیں لیکن ہم جب بھی ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو ہمیں چار پانچ گھنٹے انتظار کروا کر بتادیا جاتا ہے کہ یہ ملاقات نہیں ہو سکتی، ہم مجبور ہیں۔ روف حسن کو اس سب کے باوجود امید ہے کہ پی ٹی آئی ان انتتخابات میں اچھے نتائج حاصل کر لے گی کیونکہ بقول ان کے اس پارٹی کے پاس مضبوط ووٹ بیس ملک بھر میں موجود ہے۔
Published: undefined
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن پاکستانی تاریخ کے ایسے الیکشن ہیں جو روایتی جوش و خروش اور گہما گہمی سے عاری ہیں: ''الیکشن میں چند دن رہ گئے ہیں ابھی بھی غیر یقینی فضا طاری ہے۔ سیاسی لوگ دفتر نہیں کھول رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بچے کھچے امیدوار گرفتاریوں کے خوف سے سامنے آنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس جماعت کے تین امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور عالیہ حمزہ جیل سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔‘‘ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کے لیڈروں کا بڑی تعداد میں انتخابی عمل سے بے دخل کر دیا جانا انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات بھی متنازعہ تھے اور 2024 کے بھی، لیکن موجودہ انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ اور پری پول ریگینگ کے سابق ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined