عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سنائی جانے والی عدالتی سزاؤں پر ان کی مخالف جماعتوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ ملک کی دو بڑی جماعتوں نے اس عدالتی عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے درست اقدام قرار دیا ہے۔پاکستان میں سیاست دانوں کو عدالتی سزائیں سنانے کی روایت پرانی ہے ۔ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ، سید یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف سمیت کئی سیاست دانوں کو عدالت کی طرف سے سزائیں سنائی گئی ہیں۔ ان میں سے کئی مقدمات میں سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف قانونی حلقے سوال بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف سائفر اور توشہ خانہ کے مقدمات '' اوپن اینڈ شٹ‘‘ کیسز تھے۔ ان کے بقول یہ سزائیں پہلے ہی سنا دینی چایئں تھیں لیکن 'عدالتی سہولت کاری‘ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی ۔''عمران خان کو کئی درجن ضمانتیں ملیں، ان کے ٹرائل کالعدم قرار دیے گئے، وہ اپنی مرضی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ عمران خان نے توشہ خانہ سے مہنگے تحائف لے کر ان کی مالیت کم ظاہر کی، انہیں اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا اور انہیں مہنگے داموں بیچ کر غیر قانونی منافع کمایا۔ توشہ خانہ کیس میں اس صورتحال میں یہی فیصلہ بنتا تھا۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب عمران خان ظلم کا بیانیہ بنا کر اور ہمدردی کے پردے میں چھپ کر اپنا جرم چھپا نہیں سکتے۔ یہ فیصلے ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔
Published: undefined
بانی پی ٹی آئی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کی سزا پر پیپلز پارٹی نے بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کا کہنا تھا کہ یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ سابق وزیراعظم، ان کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ سیاسی قیدی نہیں ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ ان کے بقول ان تینوں شخصیات پر سیاسی نہیں بلکہ دیگر الزامات ہیں۔
Published: undefined
شہلا رضا کے بقول تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن کی وجہ سے جسٹس وجہیہ اور اکبر ایس بابر ان سے الگ ہوئے اور پارٹی الیکشن میں آئینی خلاف ورزیوں پر اکبر ایس بابر عدالت گئے۔''پنکی پیرنی اور فرح گوگی کے کرپشن معاملات سب کے سامنے ہیں۔ پانچ قیراط کا ہیرا آسانی سے ہضم نہیں ہوگا۔‘‘
Published: undefined
استحکام پاکستان پارٹی کے ترجمان اور پنجاب کے سابق وزیر فیض الحسن چوہان سے جب ہم نے رابطہ کرکے دریافت کیا کہ ان سزاؤں پر ان کی جماعت کا کیا موقف ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے جسے عدالت نے قانونی اور سیاسی حقائق کو سامنے رکھ کر سنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ سائفر کیس میں عمران خان کے لیے سزائے موت کی توقع کر رہے تھے اور عمران خان کی بہنیں بھی اس طرح کا واویلا کر رہی تھیں لیکن اس عدالتی فیصلے نے کوئی نیا بھٹو پیدا نہ کرکے ملک کو مزید تقسیم ہونے سے بچا لیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور ان عمران خان کو جس طریقے سے سزائیں دی جا رہی ہیں کیا سیاست دانوں کے خلاف اس رجحان کو رکنا نہیں چاہیے؟ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو جرم کیے اور جس طرح ملک کو نقصان پہنچایا اس پر کیا عدالتیں ان کو چھوڑ دیتیں، معاف کر دیتیں، اکیس توپوں کی سلامی دیتی یا ان کو ہار پہناتی۔‘‘
Published: undefined
فیض الحسن چوہان کے بقول اس فیصلے کے پاکستان پر اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں کوئی بھی اس فیصلے کے خلاف باہر نہیں نکلا۔ عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ریاست سے نہیں ٹکرایا جا سکتا، ریاست سے ٹکرانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ عمران کو معافی کیسے مل سکتی تھی۔
Published: undefined
جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم سب کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ حالات بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ ان کے مطابق سیاست دانوں کو عدالت کے ذریعے سزائیں سنانے کی پاکستان میں تاریخ پرانی ہے اس طرح کے اقدامات سے ملک میں استحکام نہیں آ سکتا اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بہت تلخی پیدا ہو چُکی ہے، مذاکرات کے دروازے بند ہیں، سیاست دان چھوٹے مفادات کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھا رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
''آٹھ فروری کو الیکشن ہو رہے ہیں پورے ملک میں ایک بے حسی کی سی فضا طاری ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت نے قوم کے مزاحمتی ردعمل کی طاقت کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو اندیشہ ہے کہ کل کو کوئی اور جماعت اس طرح کے فیصلوں کا نشانہ بنے گی۔ ہونا یہ چاہیے کہ تمام جماعتوں کے سربراہ مل کر بیٹھیں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined