DW

غزہ میں وسیع تر عوامی فاقہ کشی کے خلاف اور زیادہ تنبیہات

اس امر کا تعین کہ بھوک اور فاقہ کشی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا تعین کوئی باقاعدہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔

غزہ میں وسیع تر عوامی فاقہ کشی کے خلاف اور زیادہ تنبیہات
غزہ میں وسیع تر عوامی فاقہ کشی کے خلاف اور زیادہ تنبیہات 

کئی ماہ سے جاری جنگ کے دوران غزہ میں وسیع تر عوامی فاقہ کشی کے خلاف تنبیہات اور زیادہ ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق امداد کی ترسیل پر عائد اسرائیلی پابندیاں بھوک کو ’جنگی ہتھیار‘ بنانے کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہونے والی غزہ کی جنگ میں، جو اس وقت اپنے چھٹے مہینے میں ہے، اس فلسطینی علاقے میں پہلے ہی سے اپنے گھروں سے بےدخلی کا شکار لاکھوں انسانوں کو اشیائے خوراک کی جس شدید قلت کا سامنا ہے، اس کے خلاف اٹھنے والی بین الاقوامی آوازیں اب اور زیادہ اور بلند تر ہوتی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ غزہ کی آبادی کے اشیائے خوراک اور دوسرے امدادی سامان کی ترسیل پر اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں ممکنہ طور پر اس لیے ''جنگی جرم‘‘ بھی سمجھی جا سکتی ہیں کہ ان کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں بھوک کے مسئلے کو ''جنگی ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

Published: undefined

عالمی ادارے کے ہیومن رائٹس آفس کے ترجمان جیریمی لارنس کے مطابق، ''غزہ میں امداد کی ترسیل پر اسرائیلی پابندیوں کی وسیع تر نوعیت، اس حقیقت کے پیش نظر کہ غزہ ہی میں اسرائیل کس طرح اپنی عسکری کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے، اس حد تک شدید ہو سکتی ہے کہ اس جنگ میں بھوک کے مسئلے کو جنگی ہتھیار سمجھا جانے لگے۔ اور ایسا کرنا ایک جنگی جرم ہو گا۔‘‘

Published: undefined

ساتھ ہی عالمی ادارے کے اس دفتر کے ترجمان نے یہ بھی کہا، ''اس امر کا تعین کہ بھوک اور فاقہ کشی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا تعین کوئی باقاعدہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔‘‘ دوسری طرف اسرائیل نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ غزہ میں امداد کی ترسیل کے عمل میں اپنی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے ساتھ رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔

Published: undefined

اسرائیل کے قریب ترین اتحادی ملک امریکہ نے بھی، جس کے صدر جو بائیڈن کئی مرتبہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ جنگ میں فائر بندی کر کے امداد کی زیادہ سے زیادہ اور تیز رفتار ترسیل کو یقینی بنایا جانا چاہیے، واضح طور پر کہا ہے کہ جنگ زدہ غزہ کی ساری آبادی کو ''شدید نوعیت کے غذائی عدم تحفظ‘‘ کا سامنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے بقول غزہ کی 100 فیصد آبادی کو غذائی قلت کے شدید ترین مسئلے کا سامنا ہے اور انتہائی نوعیت کے اس غذائی عدم تحفظ کا تدارک کیا جانا چاہیے۔

Published: undefined

غزہ کے باشندوں کو امداد کی ترسیل کے لیے سمندری راستے سے امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ یہ بھی کر رہا ہے کہ غزہ کی ساحلی پٹی کے قریب ہی سمندر میں ایک ایسی عبوری بندرگاہ قائم کی جائے، جہاں بحری جہازوں کے ذریعے آنے والا امدادی سامان اتار کر اس کی غزہ تک ترسیل کو ممکن بنایا جا سکے۔ اسی دوران اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے دستوں نے غزہ پٹی کے الشفا ہسپتال میں کارروائی کر کے وہاں موجود 50 سے زائد مسلح افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ بات اسرائیلی فوج کی طرف سے آج منگل 19 مارچ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں بتائی گئی۔

Published: undefined

اسرائیل نے ابھی ویک اینڈ پر ہی ایک بار پھر دعویٰ کیا تھا کہ غزہ پٹی کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا میں حماس کے مسلح بازو کے عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے۔ ایکس پر شائع کردہ اسرائیلی پوسٹ کے مطابق اس ہسپتال میں کل پیر کو سحری کے وقت کارروائی کر کے 50 سے زائد جنگجو ہلاک کر دیے گئے۔ اس دوران ایک اسرائیلی فوجی بھی فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ یہ مسلح کارروائی اسرائیلی فوج کی الشفا ہسپتال میں اکتوبر سے لے کر اب تک کی جانے والے دوسری بڑی کارروائی تھی۔ اس سے قبل اسی طرح کا ایک عسکری آپریشن وہاں گزشتہ برس نومبر میں بھی کیا گیا تھا۔

Published: undefined

قطر کے دارالحکومت دوحہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی انٹیلیجنس کے سربراہ دوحہ سے واپس روانہ ہو گئے ہیں، تاہم قطری حکام نے بتایا کہ اس جنگ میں فائر بندی اور حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ہونے والی بات چیت ابھی تک جاری ہے۔

Published: undefined

قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے بتایا کہ اسرائیلی خفیہ سروس موساد کے سربراہ ''دوحہ سے روانہ ہو گئے ہیں،‘‘ تاہم اطراف کے مابین سیزفائر سے متعلق ''تکنیکی ٹیموں‘‘ کی سطح پر مکالمت جاری ہے۔ ماجد الانصاری نے بتایا کہ قطر اس بارے میں محتاط حد تک پرامید ہے کہ غزہ میں فائر بندی کے لیے ہونے والی یہ بات چیت نتیجہ خیز رہے گی۔

Published: undefined

دیگر عالمی طاقتوں کی طرح امریکہ بھی غزہ کی جنگ میں فائر بندی اور غزہ کی آبادی کو امداد کی تیز رفتار ترسیل کے لیے کوششیں کر رہا ہے اور یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امریکہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ایک بار پھر اس خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ پہلے سعودی عرب اور پھر مصر بھی جائیں گے۔ سعودی اور مصری رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں بلنکن کی کوشش ہو گی کہ غزہ پٹی میں فائر بندی اور امداد کی ترسیل دونوں کو جلد از جلد عملاﹰ ممکن بنایا جائے۔

Published: undefined

غزہ کی جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی، جس میں ساڑھے گیارہ سو کے قریب اسرائیلی مارے گئے تھے اور جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔

Published: undefined

ان یرغمالیوں میں سے تقریباﹰ سو سے زائد کو نومبر میں ایک فائر بندی وقفے کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی اپنی جیلوں سے بہت سے فلسطینیوں کو رہا کر دیا تھا۔ اب بھی بیسیوں اسرائیلی یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں، جسے یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined