DW

غیر مسلموں کی رمضان میں شمولیت کا بڑھتا رجحان

لبنان کے شہر بیروت کی رہنے والی 34 سالہ ریٹا بھی روزے رکھ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں مسیحی ہوں لیکن بچپن سے ہی میرے مسلم دوست بھی ہیں۔

غیر مسلموں کی رمضان میں شمولیت کا رجحان بڑھتا ہوا
غیر مسلموں کی رمضان میں شمولیت کا رجحان بڑھتا ہوا 

مشرق وسطیٰ یا مسلم ممالک کی بات کی جائے تو ان ممالک میں آباد غیر مسلموں کو کسی نہ کسی طرح رمضان میں شامل ہونا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اب رمضان میں شامل ہونے کے حوالے سے یورپی اور مسیحی ممالک میں بھی صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ایک باعمل مسلمان یہ بات کہے تو عجیب سی لگتی ہے لیکن عراق میں رہنے والی 53 سالہ مسیحی خولود خردوم اس حوالے سے بہت واضح خیالات رکھتی ہیں۔ بغداد میں مقیم اس مصنفہ کا کہنا ہے، ''ضروری نہیں کہ تمام رمضان مذہب کے بارے میں ہو۔ یہ ماحول اور لوگوں کے اکٹھا ہونے کی روایت کے بارے میں بھی ہے۔‘‘

Published: undefined

ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عراق ایک مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اُن علاقوں میں، جہاں مختلف مذہبی برادریاں ایک ساتھ رہتی ہیں، اکثر غیر مسلم بھی رمضان کی تقریبات اور مصروفیات میں شرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں، ''خاص طور پر افطار کے وقت سبھی اکھٹے ہوتے ہیں۔‘‘ خردوم کہتی ہیں، ''بعض اوقات مسیحی شہری میٹھا بنا کر اپنے مسلمان پڑوسیوں کو بھیج دیتے ہیں اور کبھی مسلمان کھانا بھیجتے ہیں۔ یا وہ سب تقریباً ایک ساتھ ہیں اور ان چیزوں کا آپس میں بانٹا جانا بہت اچھی بات ہے۔‘‘

Published: undefined

اس طرح کے میل جول اور اتفاقِ عمل کی کہانیاں مشرق وسطیٰ کے خظے اور دیگر مسلم ممالک میں بھی ملتی ہیں۔ لبنان کے شہر بیروت کی رہنے والی 34 سالہ ریٹا بھی روزے رکھ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں مسیحی ہوں لیکن بچپن سے ہی میرے مسلم دوست بھی ہیں۔ میں نے کبھی بھی مذہبی اختلافات پر زور نہیں دیا۔‘‘ اسی طرح مصری شہری اور پچاس سالہ مسیحی اُم عامر بھی مسلمانوں کے ساتھ شوق سے روزے رکھتی ہیں۔

Published: undefined

مغربی ممالک میں رمضان کا چرچا

اوپر بیان کردہ تینوں خواتین مسلم اکثریتی ممالک میں رہتی ہیں اور شاید ان کے تجربات وہاں کے باشندوں کے لیے حیران کن نہیں ہوں گے۔ آخرکار ان غیر مسلموں کے لیے رمضان کو نظر انداز کرنا اتنا ہی مشکل ہے، جتنا مسلمانوں کے لیے یورپ یا شمالی امریکہ میں رہتے ہوئے کرسمس کو نظر انداز کرنا۔

Published: undefined

تاہم مسیحی اکثریت والے یا مغربی ممالک میں بھی رمضان آہستہ آہستہ ایک اعلیٰ سطحی ایونٹ بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس لندن وہ پہلا بڑا یورپی شہر بن گیا تھا، جس نے ایک اہم سڑک کو رمضان کی روشنیوں سے سجایا تھا۔ اس سال فرینکفرٹ اَم مائن نے لندن کی پیروی کی اور وہ رمضان لائٹنگ لگانے والا جرمنی کا پہلا بڑا شہر بن گیا۔ رواں ہفتے آسٹریا کی ریاست کارنتھیا میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ایک ''اوپن افطار‘‘ کے لیے جمع ہوئے، جہاں مقامی کمیونٹی کے تمام افراد کو کھانا کھانے کی دعوت دی جاتی ہے، چاہے انہوں نے روزہ رکھا ہو یا نہ رکھا ہو۔

Published: undefined

منتظمین کے مطابق اس ایونٹ میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ اس افطار اجتماع میں شامل ہونے والے ایک شخص کا مقامی اخبار 'کلائنے سائٹنگ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ''مجھے یہاں اتنے زیادہ غیرمسلموں کی شرکت کی توقع نہیں تھی۔‘‘ واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں اسلاموفوبیا سے متعلق تحقیق کرنے والے ایک منصوبے برج انیشی ایٹو کے سینئر محقق فرید حفیظ کہتے ہیں، ''رمضان عوامی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی شناخت اور مساوات کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

تاہم رمضان کے تجارتی اثرات نے بھی مسلمانوں کے اس مقدس مہینے کے پروفائل میں اضافہ کیا ہے۔ مسلمان رمضان کے دوران تحائف اور کپڑوں سے لے کر کھانوں یہاں تک کہ گاڑیوں تک، ہر چیز پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ صرف مشرق وسطیٰ میں رمضان 2023 کے اخراجات 60 بلین ڈالر سے زائد تھے۔ رمضان کے مہینے کے لیے بنائے جانے والے اشتہارات بھی اب بدل گئے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اشتہارات اب ممکنہ ٹارگٹ کمیونٹیز سے بھی آگے تک اپنے پیغام پہنچا رہے ہیں۔

Published: undefined

ثقافتی قبضے کا الزام

تاہم مغرب میں رمضان کے حوالے سے تبدیل ہوتی ہوئی اس صورت حال سے ہر کوئی خوش نہیں ہے۔ کچھ مسلمان بھی رمضان کی کمرشلائزیشن سے پریشان ہیں۔ قدامت پسند مذہبی رہنما دلیل دیتے ہیں کہ غیر مسلموں کو رمضان میں بالکل بھی حصہ نہیں لینا چاہیے جبکہ انتہائی دائیں بازو کے یورپی شہریوں کا خیال ہے کہ یہ عمل ان کی اس تہذیب کے خاتمے کا باعث بنے گا، جس کی وہ اپنے ہی طور پر تعریف کرتے ہیں۔

Published: undefined

اسی طرح کچھ غیر مسلم سوشل میڈیا شخصیات بھی رمضان کو ایک قسم کا آن لائن ہیلتھ چیلنج سمجھ کر روزے رکھتی ہیں۔ ان کے فالوورز لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ تاہم ایسی سوشل میڈیا شخصیات پر بھی ثقافتی تخصیص کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

کیمبرج یونیورسٹی کے وولف انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر ایستھر مریم ویگنر ایسے الزامات کے برعکس نتیجہ اخذ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''غیر مسلم اسے تنوع کو منانے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں کیونکہ جب ہمارے معاشرے متنوع ہوتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ تنوع درحقیقت ایک متحرک اور عام طور پر زیادہ انصاف پسند معاشرے کی حمایت کرتا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined