DW

الیکشن 2024: تین خواتین اور تبدیلی کا خواب

سویرا پرکاش کہتی ہیں کہ جب تک خواتین معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک ملک یا گھر میں استحکام نہیں آ سکتا۔

الیکشن 2024: تین خواتین اور تبدیلی کا خواب
الیکشن 2024: تین خواتین اور تبدیلی کا خواب 

پاکستان کے عام انتخابات میں 150 جماعتوں کے تقریباً 6500 اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن ان میں سے خواتین امیدواروں کی تعداد فقط پانچ فیصد ہے۔پاکستان کا آئین صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن ملک کی سیاسی جماعتیں شاذ و نادر ہی خواتین کو اس کوٹے کے علاوہ انتخاب لڑنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس رپورٹ میں انتخاب لڑنے اور اپنی کمیونیٹیز کی زندگیاں بدلنے کے لیے کوشاں تین خواتین کے خصوصی انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔

Published: undefined

زیبا وقار

یوٹیوبر زیبا وقار کی آن لائن پلیٹ فارمز پر کئی لاکھ خواتین کی ''وفادار فالوونگ‘‘ ہے لیکن رواں ہفتے ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ وہ الیکشن میں اپنی مقبولیت کا امتحان لیں گی۔ پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے مضافات سے وہ پہلی بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ دائیں بازو کی پارٹی جماعت اسلامی کی رکن ہیں۔

Published: undefined

خواتین ہر ہفتے ان کے آن لائن پروگرامز میں شرکت کرتی ہیں، جہاں وہ انہیں اسلام کے مطابق ان کے حقوق کے بارے میں بتاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی تاریخ کے بارے میں کہانیاں بھی شیئر کرتی ہیں۔ زیبا وقار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میری معروف براڈ کاسٹ وہ ہیں، جو میں فیس بک اور یوٹیوب پر لائیو کرتی ہوں۔ وہ ون آن ون سیشن کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔ بعض اوقات میں ان سوالوں کے جواب دیتی ہوں، جو لوگ نشریات کے دوران پوچھتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جن لوگوں کی وہ تبلیغ کرتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق متوسط طبقے ہے لیکن اشرافیہ کی خواتین بھی ہیں، جو تعلیمی مواد کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کر رہی ہیں۔ زیبا وقار ایک آن لائن انسٹی ٹیوٹ بھی چلاتی ہیں، جہاں نوجوان خواتین، بشمول اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل لڑکیاں قرآن سیکھتی ہیں۔

Published: undefined

زیبا وقارکے مطابق اگر وہ منتخب ہوئیں تو خواتین کو درپیش معاشی مسائل کو دور کریں گی، ان کی پیشہ ورانہ تربیت کو بہتر بنانے اور خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کو کم کرنے کے لیے مضبوط قوانین متعارف کروانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔

Published: undefined

ثمر ہارون بلور

ثمر بلور المناک حالات کے دوران سیاست میں آئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کی انتخابی مہم کو اس وقت سنبھالا، جب انہیں گزشتہ انتخابات سے کچھ وقت قبل عسکریت پسندوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

Published: undefined

گزشتہ انتخابات کے دوران بینرز پر ان کا نام یا تصویر تک نہیں تھی۔ یہ خوف تھا کہ سماجی طور پر قدامت پسند معاشرے میں اس بات کو نامناسب سمجھا جائے گا۔ ثمر ہاروں کہتی ہیں، ''مرد ایک نوجوان، متحرک اور مغرب زدہ پشتون عورت کو پسند نہیں کرتے۔‘‘پاکستان میں انتخابی مہم کے دوران اکثر پُرتشدد واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جنوری میں صوبہ خیبر پختونخوا میں دو امیدواروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

Published: undefined

اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد وہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں پہلی خاتون صوبائی رکن اسمبلی بنی تھیں لیکن اس کے لیے عوامی ورکرز پارٹی کی ان خاتون سیاستدان کو شدید مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں، ''اگر لوگ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھتے، تو وہ ایسی باتیں کرتے تھے، اوہ! وہ خوش ہے کہ اس کا شوہر مر گیا ہے۔‘‘ تاہم اس مرتبہ بھی قدامت پسند معاشرے میں اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق اور ان کی ''آزادی‘‘ کے لیے پرعزم ہیں۔

Published: undefined

سویرا پرکاش

25 سالہ سویرا پرکاش پاکستانی سیاست میں اپنے پروفائل کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ ملک کے ایک قدامت پسند علاقے میں ایک نوجوان ہندو عورت کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ سویرا نے حال ہی میں ایک ڈاکٹر کے طور پر گریجویشن کی تعلیم مکمل کی ہے۔ ان کے والد سکھ اور والدہ مسیحی ہیں جبکہ وہ خود ہندو ہیں۔

Published: undefined

پاکستان میں مذہبی تناؤ بھی ہے اور حقوق نسواں کو بھی بڑی حد تک شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں سویرا پرکاش کہتی ہیں، ''دنیا کا کوئی مذہب انسان کو برے کام کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ ہر مذہب انسان کو اچھے کاموں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔‘‘

Published: undefined

صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کا حلقہ طویل عرصے سے مذہبی ہم آہنگی کا ایک نمونہ سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صنفی بنیاد پر امتیاز اب بھی برقرار ہے۔ بونیر شہر میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''مرکزی دھارے کی سیاست میں میری پیش قدمی کا مقصد ایسے صنفی تعصبات کا مقابلہ کرنا اور خواتین کی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔‘‘

Published: undefined

وہ پہلے کبھی کسی اسمبلی کی رکن منتخب نہیں ہوئیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی ویمن ونگ کو لیڈ کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب تک خواتین معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک ملک یا گھر میں استحکام نہیں آ سکتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined