خیبر پختونخوا حکومت نے یکم رمضان سے صحت کارڈ بحال کر دیا ہے۔ حالیہ اسکیم کے مطابق اب پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرکاری اخراجات پر زچگی کی سہولت میسر نہیں ہو گی۔گزشتہ ہفتے میڈیا سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت قاسم علی شاہ کا کہنا تھا، ”صحت کارڈ پر پرائیویٹ ہسپتالوں میں غیر ضروریسی سیکشن ہوئے۔ ہمیں ایسے کیسز کی روک تھام کرنی ہے۔ اس سے اوور بلنگ ہو رہی تھی اور دوسری جانب مریض کی صحت پر اثر پڑ رہا تھا۔" زچگی کے دوران نجی ہسپتالوں میں خواتین کے غیر ضروری سی سیکشن (جسے عرف میں بڑا آپریشن کہا جاتا ہے) کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں۔پاکستان کے صوبے پنجاب میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔
Published: undefined
پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی (پی ایچ آئی ایم سی) نے اپنے پینل پر شامل سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے اعداد و شمار حال ہی میں جاری کیے۔ ان کے مطابق 2016ء سے جنوری 2024ء کے دوران پنجاب میں چھ لاکھ اڑسٹھ ہزار سے زائد سی سیکشن آپریشن کیے گئے جن میں تقریباً پانچ لاکھ 25 ہزار 619 نجی ہسپتالوں میں سر انجام دیے گئے۔ جبکہ اس دوران پنجاب میں نارمل ڈیلیوری کے کل کیسز دو لاکھ دس ہزار 124 تھے، جن میں نجی ہسپتالوں کا حصہ محض سڑسٹھ ہزار پانچ سو تک محدود رہا۔
Published: undefined
یعنی نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونے والے 67 فیصد بچے سرکاری ہسپتالوں میں اور 33 فیصد پرائیوٹ کلینکس میں پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن سی سیکشن آپریشن میں صورت حال بالکل اس کے برعکس ہو جاتی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں محض 22 فیصد بڑے آپریشن جبکہ نجی کلینکس میں 78 فیصد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے درمیان سی سیکشن آپریشن کا اتنا نمایاں فرق بہت سے سوالات اٹھاتا ہے اور ماہرین اس معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Published: undefined
پنجاب کی نگران حکومت میں بطور وزیر صحت ذمہ داریاں نبھانے والے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پرائیوٹ ہسپتال مالی مفادات کے لیے بلا ضرورت سی سیکشن آپریشن کرتے رہے ہیں۔ یہ خواتین کی مجبوری سے مالی فائدہ سمیٹنے کی ایک بدترین مثال ہے۔"
Published: undefined
ڈاکٹر عائشہ باجوہ فیصل آباد الائیڈ ہسپتال اور نجی کلینک دونوں کے زچہ و بچہ مراکز میں کام کا تجربہ شیئر کرتی ہیں۔ وہ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ” اگر جڑواں بچے ہوں یا ماں کے پیٹ میں بچہ الٹا ہو تو ایسی غیر معمولی صورتحال میں ڈاکٹر پہلے سے سی سیکشن کا ذہن بنا لیتا ہے جو قابل فہم ہے۔ لیکن پرائیویٹ ہسپتال میں زچہ پہنچی نہیں اور ڈاکٹر سی سیکشن کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک درمیانے درجے کے نجی کلینک میں سی سیکشن ڈیلیوری کی مد میں تقریباً چالیس سے پچاس ہزار لے لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک کاروبار بن چکا ہے۔"
Published: undefined
ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں، ”صحت کارڈ کے بعد اس رجحان میں بہت اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر مریض کو اس لیے آسانی سے قائل کر لیتے ہیں کہ پیسہ سرکاری کھاتے سے ملنا ہے۔ بیچارہ مریض یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی صحت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کلینکس کھول کر اور سی سیکشن کی پیچیدگیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ عمل سرانجام دیا جاتا ہے۔"
Published: undefined
گائنا کولوجسٹ اور سماجی کارکن ڈاکٹر زری اشرف اس بات سے انکار نہیں کرتیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریضوں کا استحصال ہوتا ہے اور خواتین کو غلط معلومات فراہم کر کے ان کی سی سیکشن سرجری کر دی جاتی ہے۔ مگر وہ دوسرے پہلوؤں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اب خواتین خود بھی سی سیکشن کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے ذہن بنا چکی ہوتی ہیں کہ ہم نے سی سیکشن ہی کرانا ہے۔ یہ ان کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ وہ تکلیف سے بچنا چاہتی ہیں۔"
Published: undefined
خیال رہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نجی ہسپتالوں کو 2016ء سے جنوری 2024ء تک تمام سیزرین اور نارمل ڈیلیوری کی مد میں 16.36 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز سے وابستہ محقق ڈاکٹر اکرام اللہ کہتے ہیں، ''سرکاری ہسپتالوں میں مریض کو رجسٹریشن اور چیک اپ کے لیے طویل انتظار سے گزرنا پڑتا ہے۔ پھر سرکاری ہسپتالوں کے ایک ایک وارڈ میں بیک وقت درجنوں مریض ایک ساتھ لیٹے ہوتے ہیں۔ وہاں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی، تکلیف دہ آوازیں سنائی دیتی ہیں، ناقابلِ برداشت ماحول ہوتا ہے۔ یہ ماحول بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے زچہ بچہ سینٹر قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔"
Published: undefined
ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں، ”ہم نے گزشتہ برس تحقیقات کروائیں جس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ نجی ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر زچگی کی سہولت ختم کر دینی چاہیے۔ کیونکہ اس کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ پھر اوور بلنگ کا مسئلہ تھا جس سے صحت کا پورا شعبہ متاثر ہو رہا تھا۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined