سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے سابق صدر میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پاکستان کی قومی اسمبلی کے سولہویں قائد ایوان منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کا یہ انتخاب اتوار کو ہونے والے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں ہوا۔ شہباز شریف نے 201 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی عمر ایوب نے 92 ووٹ حاصل کیے۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے فوراﹰ بعد انہیں ان کے بڑے بھائی نواز شریف اور دوسرے اراکین اسمبلی نے بھرپور مبارکباد دی، لیکن مبارکبادوں کی اس گونج کے پیچھے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی گزشتہ حکومت کی وہ خراب کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے جو کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
Published: undefined
ناقدین کا خیال ہے کہ یہ حکومت بھی عوام کے لیے اتنے ہی مسائل لے کر آئے گی جتنا کہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت لے کر آئی تھی اور یہ کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی گزشتہ کے مقابلے میں کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔ اسی لیے اسے کئی ناقدین پی ڈی ایم ٹو کا بھی نام دے رہے۔
Published: undefined
شہباز شریف نے اپنے انتخاب کے بعد ایوان سے خطاب میں اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لیے تعریفوں کے پل باندھے اور دعویٰ کیا کہ نواز شریف نے پاکستان کی ترقی کے لیے بے لوث خدمت کی اور لوڈشیڈنگ کو ختم کیا۔
Published: undefined
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نامزدگی کے لیے نواز شریف کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے دوسرے سیاسی رہنماؤں کا بھی تذکرہ کیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔
Published: undefined
شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کو اس موقع پر ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فوج اور اداروں کے خلاف زہر اگلا، ''اپنی دو صوبائی حکومتوں سے انہوں نے کہا آئی ایم ایف سے متعلق کوئی مدد نہ کی جائے۔ قوم نے نو مئی کا دن بھی دیکھا جب اداروں پر حملے کیے گئے۔‘‘ اس موقع پہ شہباز شریف نے اپنے اتحادیوں بلاول بھٹو زرداری، علیم خان، خالد مقبول اور خالد مگسی کا بھی شکریہ ادا کیا۔
Published: undefined
اس دوران ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین قومی اسمبلی نے، جو اب سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں، ایوان میں خوب شور شرابہ کیا، جس کی وجہ سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا دکھائی دیا۔ شہباز شریف کی تقریر کئی مواقع پہ ناقابل سماعت رہی اور وہ بلند آواز میں اپنے نکات پیش کرتے رہے۔
Published: undefined
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت بھی پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت کی طرح عوامی مسائل میں اضافے کا موجب بنے گی۔ سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے شہباز حکومت کو گزشتہ دور کی طرح اس دفعہ بھی سخت اقدامات کرنا پڑیں گے، ''اور ان سخت اقدامات کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری اور عوامی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اسی لیے یہ پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل کہلائے گی اور اسی لیے اسے پی ڈی ایم ٹو بھی کہا جارہا ہے۔‘‘
Published: undefined
کشور زہرہ کے مطابق کیونکہ اب تحریک انصاف کے لوگ اراکین اسمبلی ہیں تو ان کو دبانا اتنا آسان نہیں ہوگا: ''میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ اس پورے دور میں اسی طرح شور شرابہ کریں گے جبکہ حکومت کے اتحادی بھی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں جن سے بات چیت کرنے کے لیے شہباز شریف صاحب کو 'فرشتوں‘ کا سہارا لینا پڑے گا، کیونکہ وہ 'فرشتوں‘ کے بغیر چل بھی نہیں سکتے۔‘‘
Published: undefined
خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد پی ڈی ایم کی جو حکومت آئی تھی اس کو اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور یہ کہ اس دوران پارلیمنٹ فیصلہ سازی کرنے میں اتنی با اختیار نہیں تھی اور کئی اہم فیصلے کہیں اور ہوا کرتے تھے۔
Published: undefined
کچھ تجزیہ نگاروں کا خدشہ ہے کہ وہ تسلسل اب بھی جاری رہے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ سے بالا پہلے ہی ایک کونسل بنا دی گئی ہے جس کو سپر کیبنٹ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تو پی ڈی ایم نے پہلے ہی گروی رکھ دیا تھا اور ایک ایسی کونسل بنا دی تھی جو زراعت سے لے کے معیشت تک ہر طرح کے فیصلے کر رہی تھی۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا اور پارلیمنٹ کی کوئی خود مختاری نظر نہیں آئے گی۔‘‘ امتیاز عالم کے مطابق یہ سپر کیبنٹ اٹھارویں ترمیم کے بھی خلاف ہے، وفاقی وحدت کے بھی خلاف ہے اور صوبائی خود مختاری کے بھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined