DW

پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی

مذہبی تنظیموں نے نعرہ اسلامی نظام، نظام مصطفی اور اسلامی انقلاب کا لگایا لیکن انہوں نے اتحاد سیکولر جماعتوں سے کیا۔

پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی
پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی 

پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتیں انتخابی سیاست میں سرگرم تو بہت دکھائی دیتی ہیں، تاہم انہیں عوامی مینڈیٹ نہیں ملتا، وجوہات کیا ہیں؟پاکستان کے الیکشن کمیشن میں 166 کے قریب سیاسی جماعتیں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں، جس میں تقریبا 24 کے قریب مذہبی جماعتیں ہیں۔ تاہم پاکستان کی انتخابی تاریخ میںمذہبی جماعتوں کو کبھی بھی عوام نے اتنے ووٹ نہیں دیے کہ وہ مسند اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔

Published: undefined

ملک میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، مجلس وحدت المسلمین اور راہ حق پارٹی سمیت کئی مذہبی جماعتیں پریشر گروپ کے طور پر ملک میں انتہائی موثر ہیں لیکن انتخابی سیاست میں وہ کبھی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔ کچھ لبرل تجزیہ نگاروں کے خیال میں حالیہ برسوں میں مذہبی جماعتوں کاووٹ بینک بڑا ہے اور تحریک لبیک پاکستان 2018 کے الیکشن پر دو اعشاریہ انیس ملین ووٹ حاصل کیے لیکن پارٹی صرف سندھ اسمبلی کی دو نشستیں جیت پائی۔

Published: undefined

مذہبی جماعتیں اکثریت کیوں نہیں حاصل کر سکیں

معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ کیونکہ کئی مذہبی جماعتوں نے تخلیق پاکستان کی مخالفت کی تھی اس لیے پاکستان بننے کے بعد عوام میں ان کی مقبولیت کچھ زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تو مذہبی جماعتوں نے قرارداد مقاصد اور احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے جیسے مسائل کو اٹھا کر عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔‘‘

Published: undefined

زیادہ ووٹ نہ ملنے کے تاریخی عوامل

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق عوامی مقبولیت نہ ہونے کے کچھ اور تاریخی عوامل بھی ہیں۔ '' برطانوی ہند میں انتخابات متعارف کرایے گئے تو اس کے لیے تعلیم اور ٹیکس کی شرح رکھی گئی اور زیادہ تر مولوی کیونکہ نچلے طبقہ سے تھے نہ ان کے پاس پیسہ تھا نہ ان کے پاس تعلیم تھی۔ اس لیے وہ انتخابی سیاست سے تقریبا باہر رہے۔‘‘

Published: undefined

جمہوری سیاست میں تاخیری شرکت

ڈاکٹر مبارک علی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد مذہبی جماعتیں کافی عرصے تک جمہوریت کو ایک کافرانہ نظام سمجھتی رہیں۔ ''اسی لیے وہ اس میں حصہ لینا پسند نہیں کرتی تھی۔ جماعت اسلامی نے بھی ایک وقت میں جمہوریت کو کافرانہ نظام قرار دیا اور یہ انتخابی سیاست میں دیر سے داخل ہوئے جبکہ جاگیردار سیاستدان برطانوی وقت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اس لیے وہ انتخابی سیاست کے ہنر سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔‘‘

Published: undefined

ووٹ نہ ملنے کے سماجی عوامل

ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ سماجی بھی ہے۔ ' زیادہ تر مولویوں کا تعلق بے زمین کسانوں سے ہے، جنہیں دیہاتوں میں کمی کمین سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کا اتنا سماجی رتبہ نہیں تھا کہ وہ سیاست میں حصہ لے کے جاگیردار کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کریں، یہ صرف افغان جہاد سعودی عرب اور امریکہ کی طرف سے مذہبی تنظیموں کی حمایت تھی جس کی وجہ سے مذہبی تنظیموں کے پاس پیسہ آیا اور وہ مشرف کے دور میں انتخابی سیاست میں طاقتور ہوئے۔‘‘

Published: undefined

منافقانہ سیاست

جمعت علمائے پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین قاری زوار بہادر کا کہنا ہے کہ مذہبی تنظیمیں انتخابی سیاست میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ منافقت سے کام لیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مذہبی تنظیموں نے نعرہ اسلامی نظام، نظام مصطفی اور اسلامی انقلاب کا لگایا لیکن انہوں نے اتحاد سیکولر جماعتوں سے کیا۔ مثال کے طور پر مولانا فضل الرحمن تمام حکومتوں کا تقریبا حصہ رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

انتخابی سیاست اور مذہبی جماعتیں

قاری زوار بہادر کے مطابق پاکستان کی انتخابی سیاست میں دو بار مذہبی تنظیموں یا جماعتوں نے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی۔ '' انیسو ستر کے انتخابات میں جمعیت علمائے پاکستان جس کی قیادت مولانا شاہ احمد نورانی کر رہے تھے نے سات سیٹیں قومی اسمبلی کی جیتیں جبکہ سندھ سے بھی ہم نے تقریباگیارہ بارہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں لی تھیں اور مولانا شاہ فرید الحق سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے تھے۔‘‘ قاری زوار بہادر کے مطابق اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام، جس کے قیادت مفتی محمود کر رہے تھے، اور جماعت اسلامی نے بھی قومی اسمبلی کی کچھ نشستیں لی تھیں۔‘‘

Published: undefined

مذہبی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی

دو ہزار دو کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے ترسٹھ نشستیں لی تھیں۔ اس اتحاد میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام اوردیگر مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ یہ نشستیں پاکستانی کی پوری انتخابی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کو ملنے والی عام نشستوں میں سب سے زیادہ تھیں۔

Published: undefined

تاہم دیگر انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی عام نشستوں پر صورتحال کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں تھی۔ مثال کے طور پر 1988 میں جماعت اسلامی، اسلامی جمہوری محاذ کا حصہ تھی۔ تاہم جے یو آئی ایف نے سات جبکہ جے یو آئی درخواستی نے ایک نشست حاصل کی تھی۔ 1990 میں جے یو آئی ایف نے چھ اور جمعیت علماء پاکستان نورانی نے تین عام نشستیں حاصل کیں۔ 1993 میں جماعت اسلامی نے ایک مذہبی اتحاد تخلیق کیا جسے پاکستان اسلامک فرنٹ کا نام دیا گیا اور اس نے تین نشستیں حاصل کی۔ 1997 میں جے یو آئی ایف نے دو نشستیں حاصل کی۔ 2008 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے چھ۔ 2013 کے انتخابات میں جے یو آئی ایف نے 10 اور جماعت اسلامی نے تین نشستیں حاصل کی۔ 2018 میں جمعیت علماء اسلام نے 13 نشستیں حاصل کی۔

Published: undefined

مذہبی جماعتوں کی توقعات

فروری کو ہونے والے انتخابات میں مذہبی جماعتیں امید کر رہی ہیں کہ ان کو اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ جماعت نے پورے ملک سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اچھا خاصے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گوادر، کراچی اور خیبر پختون خواہ کے کچھ حلقوں میں ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے علاقوں سے بھی ہم بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔‘‘

Published: undefined

تحریک لبیک پاکستان کے ایک رہنما ابن اسماعیل شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے تمام صوبوں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے تقریبا 740 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پنجاب اور سندھ سے ہمیں بڑے پیمانے پر نشستیں ملیں گی جبکہ کے پی سے بھی ہم امید کر رہے ہیں۔ تاہم بلوچستان میں ہمیں ہماری نشستوں کی تعداد ممکنہ طور پر محدود ہو سکتی ہے۔‘‘

Published: undefined

ماضی میں شیعہ کالعدم تنظیموں کے زوال کے بعد بننے والی مجلس وحدت المسلمین بھی انتخابی سیاست میں سرگرم ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے ایک رہنما ناصر شیرازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری پارٹی ہر صوبے سے ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پہ ہمیں ہماری پوزیشن پارہ چنار سے قومی اسمبلی کی نشست پر مضبوط ہے۔‘‘

Published: undefined

ماضی میں کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے احمد لدھیانوی، مولانا معاویہ اعظم اور مولانا مسرور نواز جھنگوی کے درمیان اختلافات کی خبریں ہیں۔ تاہم ان کی جماعت کے کئی رہنما بھی قومی اور صوبائی اسمبیلوں کی نشستوں پر مختلف ناموں سے یا تو انتخابات لڑ رہے ہیں یا کسی اور امیدوار کی حمایت کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں اس جماعت کے رہنماوں نے شہباز شریف کی کھل کر حمایت کی تھی اور اب یہ ایم کیو ایم سمیت مختلف جماعتوں کی حمایت کررہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined