یورپ میں افرادی قوت اس وقت پہلے سے زیادہ ہے اس کے باوجود مزدور ملنے مشکل ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا جواب مزدوری کے منظر نامے میں ایک بنیادی تبدیلی میں مضمر ہے، یعنی اب زیادہ تر افراد کم کام کر رہے ہیں۔ یورپ کے لوگوں سے مزید کام کرانے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا اس براعظم کے کچھ امیر ملکوں کو درپیش ہے کیونکہ وہ ریکارڈ ملازمتوں کے باوجود ملازمین کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔
Published: undefined
جرمنی، نیدرلینڈز اور آسٹریا میں حکومتیں اور کاروباری ادارے اب اس بات پر غور و خوض کر رہے ہیں کہ اضافی اوقات کار کو کارکنوں کے لیے کس طرح زیادہ پرکشش بنایا جائے۔ وہ اس حوالے سے بچوں کی نگہداشت میں توسیع سے لے کر دوستانہ ٹیکس پالیسیوں اور کام کے زیادہ لچکدار نظام الاوقات جیسے امور پر بھی غور کررہے ہیں۔ وہ زیادہ فارغ اوقات کے لیے ملازمین کی ترجیحات پر غور کررہے ہیں۔ اوسط اوقات کار میں مسلسل کمی آرہی ہے کیونکہ جزوقتی عہدے بڑھ رہے ہیں اور کل وقتی اوقات میں کمی کرنے کے لیے یونینوں کی جانب سے دباو مسلسل بڑھ رہا ہے۔
Published: undefined
جنوب مغربی جرمنی میں جزوقتی اسکول ٹیچر کے طورپر کام کرنے والے 47 سالہ مارٹن اسٹولز کہتے ہیں،"مشہور کہاوت ہے کہ زندہ رہنے کے لیے کام کرو، کام کرنے کے لیے زندہ نہ رہو۔ میرے خیال میں یہ ہمارے وقت کا نصب العین ہے۔ آپ صرف اتنا کام کرتے ہیں جتنا آپ کے لیے ضروری ہوتا ہے اور آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کے لیے وقت دے سکتے ہیں جو واقعی اہم ہیں۔"
Published: undefined
ایک لحاظ سے یورپ میں اب سے پہلے کام شاذ و نادر ہی اتنا مقبول یا قابل رسائی رہا ہے۔ یورپی یونین میں مجموعی طورپر تقریباً 75 فیصد روزگار ہے، جب کہ جرمنی، آسٹریا اور نیدرلینڈز روزگار ریکارڈ یا قریب قریب ریکارڈ کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ افرادی قوت میں خواتین کی شراکت داری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
آج جرمنی، آسٹریا اور سوئٹرزلینڈ میں دس میں سے تین سے زیادہ ملازمین پارٹ ٹائم یا جزوقتی کام کرتے ہیں۔ نیدرلینڈز میں تقریباً نصف افرادی قوت ہفتے میں 35 گھنٹے یا اس سے کم کام کرتی ہے۔ ا س کے مقابلے میں امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک سے کم جزوقتی یا 35 گھنٹے سے کم کام کرتا ہے۔ یورپ میں بالخصوص خواتین نے جزوقتی کام کو زیادہ آگے بڑھایا ہے۔ وہ اب بھی کام اور بچوں یا خاندان کی دیکھ بھال کے درمیان توازن رکھنے کے سلسلے میں مردوں سے آگے ہیں۔
Published: undefined
پھر بھی اس رجحان کا مطلب یہ بھی ہے کہ افرادی قوت کی ایک بڑی تعداد کام کے زیادہ اوقات نہیں دے رہی ہیں۔ جرمنی میں سن 2005 اور 2022 کے درمیان تقریباً سات ملین نئے کارکنوں کو افرادی قوت میں شامل کیے جانے کے باوجود ملک میں مجموعی کام کے اوقات میں بہت معمولی اضافہ ہواہے۔ اوسط جرمن ملازم نے سن 2022 میں سالانہ 1350 گھنٹے سے بھی کم کام کیا، جو کہ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او سی ای ڈی) سے تعلق رکھنے والے ملکوں میں سب سے کم ترین ہے۔
Published: undefined
جرمنی کے آئفو انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے سربراہ کلیمنس فیوسٹ نے گزشتہ سال ایک مقالے میں کہا تھا کہ "یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو بہت اچھا کام کررہا ہے۔ کم لوگوں کو کام کرنا پڑتا ہے اور فارغ وقت کا زیادہ لطف لیا جاتا ہے۔" انہوں نے تاہم اس کے منفی پہلو کے بارے میں بھی خبر دار کیا اور کہا کہ آنے والے سالوں میں کارکنوں کی تعداد میں مزید کمی واقع ہو گی۔
Published: undefined
نرسنگ اور تعلیم جیسے کم عملہ والے شعبوں میں، جہاں اسامیاں بڑھی ہیں، پارٹ ٹائم کام پہلے ہی ایک مسئلہ ہے۔ منیجروں کا کہنا ہے کہ کل وقتی ملازمت کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی کی وجہ سے انہیں کام کے اوقات کو منظم کرنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ایمسٹرڈم پرائمری اسکول ڈی کلین نکولاس کی ڈائریکٹر مارٹجی لاک کورسٹین کا کہنا تھا کہ بہت سے درخواست دہندگان ہفتے میں صرف چار دن کام کرنا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے کہا،"میں ہمیشہ (ان کے ساتھ) بات چیت یہ کہتے ہوئے شروع کرتی ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ آپ صرف چار دن کام کرنا چاہتے ہیں۔ میں انہیں بتاتی ہوں کہ کل وقتی کام کرنے کے کیا فائدے ہیں۔ نہ صرف تنخواہ کے لحاظ سے بلکہ طویل مدتی فائدے کے بارے میں بھی بتاتی ہوں۔ وہ اپنے انتخاب اور اس کے نتائج کے بارے میں بھی آگاہ ہیں۔"
Published: undefined
ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں عملے کی کمی کا اور بھی زیادہ امکان ہے۔ آجروں اور پالیسی سازوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ کیا امیر یورپی ملکوں میں بہت سے کارکن کل وقتی سے کم کام کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ٹل برگ یونیورسٹی میں ماہراقتصادیات باسٹیان اسٹارنک کا کہنا تھاکہ" نیدرلینڈز میں 1.5 تنخواہ، یعنی جس میں ایک بالغ کل وقتی اور دوسرا جزوقتی کام کرتا ہے، اب عام بات ہے۔" انہوں نے کہا کہ،"یہ شاید ایک عیش و آرام کی چیز ہے جس کے ہم نیدرلینڈز میں کل وقتی کام نہ کرنے کے باوجود متحمل ہو سکتے ہیں۔"
Published: undefined
آجرین اور حکومتیں اب یہ جاننے کی کوشش کررہی ہیں کہ ان کے پاس موجود کارکنوں کے مزید کام کے گھنٹے کیسے حاصل کیے جائیں۔ جرمنی کی ریاست باڈین وورٹیمبرگ نے تمام معلمین، جو 75 فیصد سے بھی کم پارٹ ٹائم کام کرنا چاہتے ہیں یا وہ جو پہلے سے ہی کم گھنٹے کام کررہے ہیں، کو اس کی وجہ بتانے کے لیے کہا ہے۔ وہاں کی وزارت تعلیم نے کہا کہ یہ اقدام، جو کہ اقدامات کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، ریاست کے ایک لاکھ پندرہ ہزار اساتذہ میں سے چار ہزار کو متاثر کرتا ہے۔
Published: undefined
ان اساتذہ میں سے ایک سٹولز، جو 50 فیصد کام کرتے ہیں کا کہنا تھا کہ پارٹ ٹائم ملازمت انہیں اپنے عمررسیدہ والدین کی زیادہ خدمت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ "میں تسلیم کرتا ہوں کہ مزید گھنٹے کام کرنے کی صلاحیت مجھ میں ہے لیکن میرے اور میرے ساتھیوں کے پاس ایسا نہ کرنے کے بہت ساری مناسب وجوہات ہیں۔"
Published: undefined
بعض حکومتیں دوستانہ انداز بھی اپنا رہی ہیں حالانکہ یہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ نیدرلینڈز نے سن 2025 سے بچوں کی دیکھ بھال پر سبسڈی بڑھانے سے اتفاق کیا تھا لیکن بجٹ میں کٹوتیوں کی وجہ سے اسے 2027 تک کے لیے ملتوی کردیا۔
Published: undefined
آسٹریا کی کنزرویٹیو۔ گرین اتحادی حکومت نے زیادہ اوقات تک کام کرنے والے ملازمین کو ٹیکسوں میں رعایت دینے کی تجویز واپس لے لی کیونکہ مخالفین نے ایسا کرنے سے سماجی فوائد کے لیے فنڈنگ کم ہو جانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جرمنی نے بھی 1.5 تنخواہ والے جوڑوں کے لیے ٹیکس کے ضابطوں میں اصلاحات کو روک دیا ہے۔ جرمنی اب دیگر اقدامات کے علاوہ مبینہ طورپر گھر سے کام کرنے کے لیے کاروباری اداروں کو اجازت دینے پر غور کررہا ہے۔
Published: undefined
ایک ڈچ تنظیم ایک اور طریقہ اختیار کررہی ہے: آجروں کو اپنے موجودہ عملے میں کام کے مزید گھنٹے تلاش کرنے میں مدد کرنا۔ ہیٹ پوٹینشیئل پاکین (امکانات کی تلاش) نامی ایک این جی او اپنے کلائنٹس کے ساتھ اس پہلو پر کام کررہی ہے کہ ملازمین کے ساتھ کس طرح بہترین انداز میں اپروچ کیا جاسکتا ہے اور ٹیم کے اراکین کے درمیان کام کے منصوبے کیسے بنائے جاسکتے ہیں۔
Published: undefined
ہیٹ پوٹینشیئل پاکین زیادہ تر گھروں میں نرسنگ خدمات فراہم کرنے والی ایجنسیوں اور اسکولوں کے ساتھ کام کرتی ہے اور ڈچ وزارت صحت کی طرف سے اسے بڑے پیمانے پر فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ تنظیم کے بانی وائٹیک گریون کا کہنا تھا کہ ملازمین، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں، عام طورپر پہلے سے زیادہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ان سے اکثر اس بارے میں پوچھا ہی نہیں جاتا ہے۔ گریون کا کہنا تھا، "میرے خیال میں انفرادی انتخاب اور معاشرے کی ضرورت کے درمیان ہمیشہ تناو رہتا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی بنیادی بحث ہے، جس پر بات ہونی چاہئے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined