لاہور میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی گفتگو اس وقت دلچسپ صورت اختیار کر گئی جب انہیں مشکل سوالوں کے جواب کو گول کرنا پڑا۔لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹیریٹ میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کے ایک منتخب گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے تفصیلی اظہار خیال کیا، اپنی کامیابیاں گنوائیں، مستقبل کے پلان شئیر کیے اور (ن) لیگ کے منشور کے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
Published: undefined
جب ان سے پارٹی کے ساتھ کئی دہائیوں کی وابستگی رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کی طرف سے پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں ووٹروں سے کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری کریں کیا حکومت سے نکالے جانے کے بعد جی ٹی روڈ کے احتجاجی ریلیوں میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دینے والے میاں محمد نواز شریف کے نزدیک بھی اس نعرے کا مطلب یہی تھا ؟ اس سوال پر پہلے تو انہوں نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا اور بعد میں یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ اس کے دونوں ہی مطلب ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
میاں شہباز شریف سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر پیچھے کیوں ہے تو انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے بتایا کہ ہم نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیے، دانش اسکول کھولے، روایتی پٹواری نظام کا خاتمہ کیا اور اب نئے منشور میں بھی نوجوانوں کے لیے کئی منصوبے لا رہے ہیں۔
Published: undefined
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کے دو دوست ممالک نے عمران خان کے برسر اقتدار رہنے کی صورت میں مالی تعاون سے انکار کر دیا تھا اس پر شہباز شریف نے بتایا کہ مجھے اس خبر کا تو پتا نہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جنازہ نکالا گیا اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات زمین بوس ہو گئے تھے جنہیں سب نے مل کر ٹھیک کیا۔ ''ماضی کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ خوامخواہ کی لڑائی لی۔ امریکہ کوئی نتھو پھتو ملک نہیں ہے وہ ایک سپر پاور اور عالمی طاقت ہے۔ اس حقیقت کو ماننا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
جب مسلم لیگ ن کے صدر سے یہ دریافت کیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے منشور کے اعلان میں تاخیر کیوں ہوئی تو ان کا جواب تھا کہ اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔ بعد میں اسی حوالے سے پوچھے جانے والے متعدد سوالوں کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے منشور میں تین اہم چیزیں ہیں جن میں ملک کی نوجوان نسل کی جدید تعلیم، تربیت اور اُنہیں بااختیار بنانا، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور پاکستان بھر میں شمسی توانائی کو عام کرنا شامل ہیں۔
Published: undefined
جب میاں شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ کیوں قرار دیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی ایسی بات نہیں کہ دراصل وہ میڈیا نمائندو ں کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے جہاں پر ایک خاتون صحافی نے یہ کہا تھا کہ آپ پچھلے تیس سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔ ''حالانکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ میں وہ آدمی ہوں جس نے نے نیب جیل کاٹی، اٹک قلعے میں رہا اور لانڈھی جیل بھگتی۔ ‘‘
Published: undefined
نگران وزیر اعظم کی طرف سے قائد اعظم کے حوالے سے دیے جانے والے ایک حالیہ بیان کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ تو معلوم نہیں ہے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے قائد اعظم کے حوالے سے کیا بیان دیا تھا تاہم نگران وزیر اعظم کا حق ہے کہ وہ بات کریں لیکن ہمارا ان سے اتفاق یا اختلاف ضروری نہیں۔ ان کے بقول پاکستان مسلم لیگ نون قائد اعظم کی تعلیمات کے ساتھ کھڑی ہے۔
Published: undefined
اس سے پہلے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ تاثر درست ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ بننے سے ن لیگ کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ ان کے بقول حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ پاکستان کی بہتری کے لیے کیا تاکہ ملک دیوالیہ نہ ہو۔ ''اتحادی حکومت میں سب ہی ذمہ دار ہوتے ہیں، یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ جس کے پاس جو محکمہ ہوتا ہے وہی اُس کا جواب دہ ہوتا ہے۔ سولہ ماہ میں سارے فیصلے کابینہ نے کئے اور جو جو لوگ کابینہ میں بیٹھے تھے وہ سارے ان فیصلوں کی ذمہ داری لینے سے بھاگ نہیں سکتے۔‘‘
Published: undefined
میثاق جمہوریت کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ کی حکومت قائم ہوتی ہے تو کسی سے کوئی سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا مگر قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے سابقہ دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا یہ رواج دوبارہ عمران خان نے شروع کیا اور ایک فسطائیت کا دور تھا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے اپنی ساری توانائیاں ملک کی خدمت کرنے کی بجائے حزبِ اختلاف کو جیلوں میں بند کرنے پر لگائیں۔
Published: undefined
سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اُس وقت ایک منصوبے کے تحت آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھایا گیا گیا، آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کے باوجود ن لیگ جیت چکی تھی، مگر اُس کے بعد پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکال کا ٹھپے لگائے گئے اور نواز شریف کے کاموں کو گالی بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح ترقی کا سفر روک دیا گیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ جو لوگ پچھلے چھیتر سالوں میں ملک پر حکمران رہے ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ملک اس حال تک کیسے پہنچا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب آگے کی طرف دیکھنا چاہئے اور ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا