DW

افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات، برطانوی وزیرکو سزا ملنے کا امکان

بی بی سی نے 2022 ء میں رپورٹ کیا کہ ایس اے ایس کے ایک اسکواڈرن نے افغانستان کے چھ ماہ کے دورے کے دوران مشکوک حالات میں کم از کم 54 افراد کو ہلاک کیا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

 

برطانیہ کے ایک وزیر کو افغانستان میں برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار پر سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہےبرطانوی حکومت کے ایک وزیرکو افغانستان میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کا سامنا کرنے والے فوجیوں کا نام ظاہر کرنے سے انکار کرنے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر انہیں قید اور جرمانے یا جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

جانی میرسر جو سابقہ برطانوی فوجیوں سے متعلق امور کے وزیر ہیں، نے ان متعدد فوجی افسروں کی شناخت ظاہرکرنے سے انکار کیا ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر قتل اور بعد ازاں اُسے چھپانے کے بارے میں خود انہیں بتایا تھا۔

Published: undefined

برطانوی وزیر اس حوالے سے بنائے گئے کمیشن اور عوامی انکوائری کے سامنے ان فوجیوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے جن کے بارے میں یہ پتہ لگایا جارہا ہے کہ آیا ایک یونٹ نے جنگ لڑنے کے قابل عمر والے مردوں یعنی اٹھارہ تا چالیس برس کی عمر کے مردوں کے ایک گروپ کو سزائے موت دی تھی اور بعد ازاں اس واقعے کو دبا دیا گیا تھا یا اس کی پردہ پوشی کی گئی تھی۔ گرچہ ان مردوں کے اس گروپ کو، دوہزار دس تا دوہزارتیرہ کے درمیان جنگ زدہ ملک میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

Published: undefined

13 مارچ کو ایم پی سیکشن 2 برطانیہ کے انکوائریز ایکٹ 2005 ء کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ نوٹس میں 42 سالہ میرسر سے کہا گیا کہ وہ پانچ اپریل شام چار بجے تک کمیشن کو ان سابقہ فوجیوں کے ناموں پر مشتمل اپنا بیان درج کروائیں۔ اگر کسی معقول عذر کے بغیر حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو اس کی سزا قید اور جرمانہ یا جرمانہ ہو سکتی ہے۔

Published: undefined

تحقیقات کے چیئرمین، چارلس ہیڈن کیو کے دستخط شدہ ریمارکس میں مزید کہا گیا ہے کہ لندن کی ہائی کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کے ذریعے اس حکم کو نافذ کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں میرسر کو ''قید‘‘ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ میرسر کی رضامندی کے بغیر قانونی ٹیم کے اراکین کے علاوہ کسی کے سامنے نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں مکمل رازداری رکھی جائے گی ۔

Published: undefined

اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے میرسر کو 3 اپریل تک کا وقت دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ جب انہوں نے انکوائری کو ثبوت دیے تب بھی انہوں نے نام ظاہر کرنے سے انکار کیا تھا ۔ میرسر نے اسپیشل بوٹ سروس (ایس بی ایس) کے رکن کا نام ظاہر کرنے سے بھی انکار کر دیا جس نے کہا تھا کہ اسے ''ڈراپ ہتھیار‘‘ لے جانے کے لیے کہا گیا تھا - یہ ہتھیار جو ایک ایسے آپریشن میں بروئے کار لایا گیا جو غیر مسلح شخص کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ میرسر نے کہا ، ''ایک چیز جس پر آپ قائم رہ سکتے ہیں وہ ہے آپ کی دیانت داری اور میں ان افراد کے ساتھ ایسا ہی کروں گا۔‘‘

Published: undefined

میرسر خود برطانوی فوج کے ایک سابق افسر ہیں جو تین بارافغانستان میں خدمات انجام دینے پر مامور رہے ہیں ۔ وہ 2015 ء سے جنوب مغربی انگلینڈ کے پلائی ماؤتھ میں کنزرویٹیو پارٹی کے ممبر پارلیمان ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جو لوگ مخبری کرتے ہیں انہیں ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں اور وہ کمزور ہوتے ہیں۔ میرسر کے قریبی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جیل جانے کے حوالے سے فکر مند تو ہیں لیکن نام صرف اس صورت میں ظاہر کریں گے جب ''ذرائع‘‘ انہیں اجازت دیں گے۔

Published: undefined

وزیر اعظم رشی سونک کے دفتر نے میرسر کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا لیکن کہا کہ ہے کہ لوگوں کو ''یقیناً‘‘ عوامی پوچھ گچھ کی تعمیل کرنی چاہیے۔ افغان خاندانوں نے برطانیہ کی خصوصی افواج پر افغانستان میں شہریوں کے خلاف ''قتل کی مہم‘‘ چلانے کا الزام لگایا ہے جبکہ وزارت دفاع کے سینئر افسران اور اہلکاروں نے تحقیقات کو روکنے کی کوشش کی۔

Published: undefined

بی بی سی نے 2022 ء میں رپورٹ کیا کہ ایس اے ایس کے ایک اسکواڈرن نے افغانستان کے چھ ماہ کے دورے کے دوران مشکوک حالات میں کم از کم 54 افراد کو ہلاک کیا، جن میں قیدی اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ انکوائری رائل ملٹری پولیس، جو فوج کے اہلکاروں کی پولیسنگ کی ذمہ دار ہے، کی طرف سے کی گئی تھی جو دو تحقیقات کی چھان بین کر رہی ہے ۔

Published: undefined

اُدھر 2014 ء میں خصوصی فورسز کی جانب سے دی گئی پھانسیوں کے الزامات کی جانچ کے لیے قائم کردہ ''آپریشن نارتھ مور‘‘ کے تحت کوئی الزامات سامنے نہیں آئے ، جبکہ موت کی سزاؤں میں بچے بھی شامل تھے۔ تین فوجیوں کو سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی کے حوالے بھی کیا گیا تھا ، لیکن کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined