DW

پاکستان میں پنجابی تھیٹر کی فحاشی کے سائے میں ماند پڑتی چمک

اب یہ سفر ڈھلوان کا سفر ہے، آج نہیں تو کل تھیٹر کا باقی ماندہ کلچر بھی فلم انڈسٹری کی طرح زمین بوس ہو جائے گا۔

پاکستان میں پنجابی تھیٹر کی فحاشی کے سائے میں ماند پڑتی چمک
پاکستان میں پنجابی تھیٹر کی فحاشی کے سائے میں ماند پڑتی چمک 

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پنجابی زبان کے عوامی تھیٹر پر اکثر فحاشی اور فحش کلامی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کئی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں اس تاثر سے اس مقبول عام تفریح کی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے۔سہیل احمد پاکستان میں تھیٹر کے معروف ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ تقریباً 35 برس تک اسٹیج شو کرتے رہنے کے بعد اب تھیٹر کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور ان دنوں ٹی وی پر 'حسب حال‘ کے نام سے ایک کامیاب پروگرام کرتے ہیں۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”تھیٹر کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ اب وہاں کام کرنے کا دل نہیں چاہتا۔ مزاح کے نام پر پھکڑ بازی کا بازار گرم ہے۔ بازاری زبان بولی اور برہنہ رقص پیش کیے جاتے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ آیا تھیٹر کے تباہ ہونے میں ابھی کوئی کسر باقی ہے؟"

Published: undefined

پاکستان میں تھیٹر اپنی موت آپ کیوں مر رہا ہے؟

پاکستان میں تھیٹر خاص طور پر پنجابی تھیٹر کی موجودہ صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر اور اسے خیرباد کہہ کے ٹی وی کا رخ کرنے والے فنکاروں میں سہیل احمد واحد مثال نہیں ہیں بلکہ ایسے درجنوں نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں پنجابی تھیٹر اس حال تک کیسے پہنچا اور اس کا مستقبل کیا ہے؟

Published: undefined

پنجاب میں جدید عوامی تھیٹر کا عروج

پاکستان میں تھیٹر کی ابتدائی شخصیات میں سے ایک اور اسلام آباد میں نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق سربراہ نعیم طاہر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ابتدا میں فنکار بھی شوقیہ تھے اور سامعین بھی۔ 1957 میں ہمارا ایک ڈرامہ 'جرم کس کا‘ بہت کامیاب ہوا تھا۔ تب میں نے فیض صاحب سے معاوضے کی بات کی تھی۔ لیکن صحیح معنوں میں یہ اوپن ایئر تھیٹر میں ڈرامہ کرنے والے لوگ ہی تھے، جن سے کمرشل تھیٹر آگے بڑھا۔"

Published: undefined

اس وقت پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے الحمرا آرٹس سینٹر میں بہت سنجیدہ اور مخصوص لوگوں کی دلچسپی کا تھیٹر کیا جا رہا تھا جبکہ لاہور ہی کے باغ جناح کے اوپن ایئر تھیٹر میں عوامی انداز کے مزاحیہ ڈرامے سٹیج کیے جا رہے تھے۔

Published: undefined

اس تقسیم کو یاد کرتے ہوئے سہیل احمد کہتے ہیں، ”امان اللہ پر الحمرا کے دروازے بند تھے۔ قوی خان پہلی مرتبہ انہیں وہاں لے کر گئے تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ ایک تفریق یہ تھی کہ عوامی تھیٹر کم تر درجے کی چیز ہوتا ہے۔" پاکستانی تھیٹر کے نامور آرٹسٹ خالد عباس ڈار کے بقول امان اللہ نے پہلے پانچ سال تو آرٹس کونسل میں کام ہی نہیں کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''میں نے اسے کہا، بیٹا! یہاں بھی آؤ۔ تو اس نے کہا میں اپنی مختلف آڈیئنس پیدا کر رہا ہوں۔ یہ اور آڈیئنس ہے، اور وہ اور ہے۔‘‘

Published: undefined

خالد عباس ڈار کے بقول امان اللہ کی آمد کے ساتھ ہی نئے فنکاروں کا جیسے ایک سیلاب آ گیا تھا، ”میں نے اپنی شوبز کی ساٹھ پینسٹھ سالہ زندگی میں کسی دوسرے استاد کے اتنے شاگرد نہیں دیکھے، جتنے امان اللہ کے تھے۔" نعیم طاہر کہتے ہیں، ”امان اللہ جیسے لوگوں کی آمد سے عام آدمی کی تھیٹر میں دلچسپی بڑھی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں عوامی تھیٹر کے فنکار چھائے ہوئے تھے۔ یہ وہ عام لوگ تھے، جو عام لوگوں ہی کے لیے پرفارم کر رہے تھے۔"

Published: undefined

سہیل احمد کے مطابق تب امان اللہ کی شہرت کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی رات خالی نہ جاتی تھی۔ ایک کے بعد ایک شو ہوتا تھا۔ یہی وہ وقت تھا، جب ایسے لوگ بھی تھیٹر میں آ گئے تھے، جن کا مقصد محض بزنس تھا۔ فلم انڈسٹری کے زوال اور پرائیویٹ چینلز کے عروج کے درمیانی عرصے میں پنجاب میں عوامی تھیٹر خوب چلا۔ بڑے شہروں میں یہ فنکار لائیو شو کرتے جبکہ دور دراز کے دیہات میں ان کی ریکارڈنگ کی سی ڈیز پہنچتی تھیں۔

Published: undefined

نجی ٹی وی چینلز کی آمد اور بڑے ناموں کی تھیٹر سے رخصتی

خالد عباس ڈار، امان اللہ اور سہیل احمد سٹیج کے نمبر ون اداکار تصور کیے جاتے تھے۔ یہ سب تھیٹر چھوڑ کر ٹی وی پر آ گئے۔ ان کے علاؤہ افتخار ٹھاکر، آغا ماجد، ہنی البیلا، امانت چن اور ناصر چنیوٹی سمیت درجنوں نام ایسے ہیں جن کا سٹیج سے تعلق بہت محدود ہو گیا تھا اور جو زیادہ تر ٹی وی پر ہی نظر آتے تھے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ’میڈیا منڈی‘ کے مصنف اکمل شہزاد گھمن نے بتایا، ”نجی ٹی وی چینلز کی آمد نے تھیٹر سمیت شوبز کی ہر شاخ کو متاثر کیا۔ میڈیا مالکان جانتے تھے کہ مشہور آرٹسٹ اپنے ساتھ کتنے کتنے بڑے ہجوم بھی کھینچ کر لا سکتے تھے۔ یہاں معاوضہ بھی بہتر تھا۔ دوسری طرف سٹیج کا ماحول بتدریج خراب ہوتا جا رہا تھا۔ سہیل احمد بھی تقریباً دس برس تک مزاحمت کرتے رہے لیکن بالآخر انہیں بھی کنارہ کش ہونا پڑا۔" ماضی میں تو سٹیج ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جاتے تھے۔ آخر بات یہاں تک کیسے پہنچی کہ سہیل احمد جیسے بڑے فنکاروں کو بھی تھیٹر چھوڑنا پڑا؟

Published: undefined

تھیٹر پر فحاشی کے سائے

حالیہ کچھ عرصے کے دوران متعدد مرتبہ پبلک تھیٹر کے فنکاروں پر فحاشی یا فحش گوئی کے الزامات بھی لگے اور کئی تھیٹر سیل بھی کر دیے گئے۔ گزشتہ برس ستمبر میں محکمہ داخلہ پنجاب نے 18 رقاصاؤں پر غیر اخلاقی رقص کرنے کے سبب پابندی لگا دی تھی۔ پچھلے سال ہی ایک موقع تو ایسا بھی آیا تھا، جب ایک ماہ تک پنجاب کے تمام تھیٹر بند رہے تھے۔

Published: undefined

اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں کہ پنجاب کے تھیٹر کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو یہاں کی فلم انڈسٹری کے ساتھ ہوا۔ ”فلم عوامی تفریح تھی، اس کا ایک پورا کلچر تھا۔ لوگ فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے سینما جایا کرتے تھے۔ پھر ایسے لوگ بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے لگے، جن کی فن و ثقافت میں دلچسپی واجبی سی بھی نہیں تھی۔ وہ بس مال بنانا چاہتے تھے۔ ایک فارمولا تھا کہ فلم کو کامیاب بنانا ہو تو اس میں مار دھاڑ، ذومعنی فقرے بازی اور گھٹیا قسم کے ناچ گانے سمیت سب کچھ ہونا چایے۔ تب ’کنڈی نہ کھڑکا‘ جیسے گانے مشہور ہوئے، لوگوں نے سینما جانا چھوڑ دیا اور بالآخر انڈسٹری ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ تھیٹر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ آج کا کمرشل تھیٹر ذومعنی فقرے بازی اور گھٹیا قسم کے ناچ گانے کے سوا ہے کیا؟"

Published: undefined

پاکستان میں آل پنجاب تھیٹر ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ مقابلہ بازی ہے۔ بااثر ڈانسرز لگے بندھے پیسوں کے بجائے منافع میں اپنا حصہ مانگنے اور وصول کرنے لگ گئیں۔ زیادہ سے زیادہ آڈیئنس اپنی طرف کھینچنے کے لیے تمام حدیں پار کر لی جاتی ہیں۔ اب تو زیادہ تر آڈیئنس ہی وہی رہ گئی ہے، جو بیہودہ تھیٹر ہی دیکھنا چاہتی ہے۔" تو کیا پنجابی تھیٹر ایسے ہی چلتا رہے گا؟ اس کی بہتری کے امکانات کیا ہیں اور آیا صورت حال سنگین تر ہو جائے گی؟

Published: undefined

پنجاب میں تھیٹر کا مستقبل کیا ہے؟

اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں، ”ایک وقت تھا جب انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کمرشل تھیٹر کا راج تھا۔ پنجاب کے فنکار اسٹیج ڈرامے کو نئی بلندیوں تک لے گئے۔ اب یہ سفر ڈھلوان کا سفر ہے۔ آج نہیں تو کل تھیٹر کا باقی ماندہ کلچر بھی فلم انڈسٹری کی طرح زمین بوس ہو جائے گا۔"

Published: undefined

دوسری طرف نعیم طاہر کہتے ہیں، ”انڈیا میں تھیٹر ہے۔ فلم انڈسٹری ہے۔ کلاسیکی موسیقی ہے۔ آرٹس کے تمام شعبے ترقی کر رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ ان کے تھیٹر سے آئے ہوئے فنکار فلمی صنعت میں کھپ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں فلم انڈسٹری ہی نہیں رہی۔ تھیٹر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اب تو بس امید ہی کی جا سکتی ہے کہ دوبارہ کبھی اچھے دن بھی آئیں گے۔"

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined