پاکستانی قوم پرست جماعتوں کو ملک کے کچھ علاقوں میں تو پذیرائی حاصل ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ برسوں سیاست کرنے کے باوجود ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔بہت سے حلقے اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ پاکستان میں قوم پرست جماعتوں کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے؟ ان کے چیلنجز کیا ہیں؟ کچھ قوم پرست جماعتیں اسٹریٹ پاور رکھنے کے باوجود انتخابات میں بھرپور حصہ کیوں نہیں لیتیں یا اگر حصہ لیتی ہیں تو وہ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟
Published: undefined
پاکستان میں مہاجر قومی موومنٹ، جیے سندھ محاذ، عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پنجاب نیشنل پارٹی اور سرائیکی نیشنل پارٹی سمیت کئی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری جماعتوں کی انتخابی سیاست میں کوئی مضبوط موجودگی نظر نہیں آتی جب کہ کچھ جماعتوں کی موجودگی بالکل ہی نہیں ہے۔
Published: undefined
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سندھی قوم پرستی سب سے زیادہ مضبوط ہے، جہاں سندھی قوم کے نام پر سندھی قوم پرست وفاقی پالیسیوں پہ بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسے کئی میگا پراجیکٹس، قوم پرستوں کی مخالفت کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکے یا تکمیل کو نہیں پہنچے۔
Published: undefined
سندھ کی سیاست پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار شکیل سومرو نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سندھ میں قوم پرستی کے سب سے بڑے علمبردار جی ایم سید تھے جنہوں نے 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد ان کی جماعت تقریباﹰ انتخابی سیاست سے دور ہو گئی اور وہ علیحدگی پسندی کی طرف چلی گئی۔ ان کی موت کے بعد جماعت میں کئی دھڑے بن گئے اور وہ سب انتخابی سیاست سے دور ہیں۔‘‘
Published: undefined
شکیل سومرو کے مطابق عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی اور کچھ اور جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں لیکن انہیں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ مزید یہ کہ جی ایم سید کے گھرانے کے کچھ افراد نے انفرادی طور پر یا چھوٹی موٹی پارٹیاں بنا کر انتخابات میں حصہ لیا اور ان کو کچھ کامیابی بھی ہوئی، ''لیکن پارٹی بحیثیت مجموعی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔‘‘
Published: undefined
صوبہ خیبر پختون خوامیں، جسے اٹھارویں ترمیم سے پہلے شمال مغربی صوبہ کہا جاتا تھا، قوم پرستانہ سیاست کئی عشروں تک حاوی رہی۔ تاہم گزشتہ 10 برسوں میں وہاں پر پاکستان تحریک انصاف ایک بہت بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اسے دو بار منتخب کیا گیا۔
Published: undefined
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ قوم پرستوں کا اس صوبے اور بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں شروع سے ہی بہت اثر و رسوخ رہا ہے: '' تخلیق پاکستان کے وقت خدائی خدمت گار کانگریس کے اتحادی تھے اور صوبے میں کانگریس کی حکومت تھی۔ بعد میں اس حکومت کے خاتمے اور بھابڑہ میں پختون سیاسی کارکنان کے قتل عام نے قوم پرستانہ جذبات کو مزید مضبوط کیا۔‘‘
Published: undefined
ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق بلوچستان کے پختون بیلٹ میں صمد خان اچکزئی، محمود خان اچکزئی اور دوسرے پختون قوم پرستوں کو بہت اثر ورسوخ رہا اور انہوں نے انتخابی سیاست میں کامیابی بھی حاصل کی: ''ایوب خان کے مقابلے میں ولی خان اور دوسرے قوم پرستوں نے فاطمہ جناح کی بنیادی جمہوریتوں والے انتخابات میں حمایت کی اور 70 کے الیکشن میں نیشنل عوامی پارٹی نے صوبے میں اچھی خاصی نشستیں حاصل کیں۔‘‘
Published: undefined
بلوچستان شاید وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر قوم پرستانہ سیاست روز اول سے ہی بہت طاقتور ہے اور وہاں وفاق کی سیاست کرنے والی جماعتوں کو بہت کم پذیرائی حاصل ہوئی۔ بلوچستان حکومت کے سابق مشیر برائے منصوبہ بندی اسحاق بلوچ کا کہنا ہے کہ آج بھی صوبے میں اگر منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تو نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سب سے طاقتور جماعتیں بن کر ابھریں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قوم پرستانہ تحریک مکران ڈویژن میں بہت طاقت ور رہی ہے جہاں پر کوئی سرداری نظام نہیں ہے جبکہ جلاوان اور سراوان کے مختلف علاقوں میں سرداری نظام طاقتور ہے۔ تاہم ابھرتی ہوئی قوم پرست تحریکوں نے ان خطوں میں بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔‘‘
Published: undefined
ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے مطابق عطا اللہ مینگل، اختر مینگل، ڈاکٹر مالک اور نواب اکبر بگٹی جو مختلف مواقع پہ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح قوم پرستانہ سیاست سے تھا۔
Published: undefined
شکیل سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ کی انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کو پذیرائی اس لیے نہیں مل پائی کیونکہ پیپلز پارٹی نے ان کے سارے نعروں کو اپنا لیا ہے: ''کالا باغ ڈیم ہو یا سندھ کے پانی کا مسئلہ، پیپلز پارٹی سندھ کے تمام قومی سوالات پر قوم پرستانہ لائن لیتی ہے، جس کی وجہ سے انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کی گنجائش نہیں بن پاتی۔‘‘ شکیل سومرو کے مطابق اس کے علاوہ زیادہ تر قوم پرست جماعتیں مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں، ''اور ان کے پاس وڈیروں کی طرح کروڑوں یا اربوں روپے نہیں ہیں جو وہ انتخابی سیاست پر خرچ کریں۔ اس کے علاوہ وہ تھانہ اور کچہری کی سیاست بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
Published: undefined
ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ موروثی سیاست، مذہبی جماعتوں کا ابھار اور اسٹیبلشمنٹ کی قوم پرست مخالف پالیسیوں نے قوم پرستوں کی انتخابی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے: ''انتخابی سیاست میں جی ایچ کیو یہ فیصلہ کرتا ہے کس کو اقتدار میں لانا ہے اور کسے روکنا ہے۔ اس کی وجہ سے قوم پرستوں کو انتخابی سیاست میں بہت مشکلات ہوئی ہیں۔‘‘
Published: undefined
اسحاق بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا ابھار قوم پرست تحریکوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے: ''انتخابی سیاست پر تو شاید وہ اتنے اثر انداز نہ ہوں کیونکہ وہ لوگ انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔ تاہم مزاحمتی سیاست کی وجہ سے بلوچستان میں انتخابات کے دوران نوجوانوں کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ کم ہوا ہے، جو یقینا قوم پرستانہ انتخابی سیاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ پاکستان میں پنجاب نیشنل پارٹی اور سرائیکی نیشنل پارٹی سمیت دوسری کئی قوم پرست جماعتیں بھی سیاست میں سرگرم ہیں لیکن ان کی انتخابی سیاست میں کوئی خاص موجودگی نظر نہیں آتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز