جب سے ملک کے بہت سے متنازعہ سیاسی امور انصاف کے ایوانوں میں تصفیے کے لیے پہنچنا شروع ہوئے ہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا وکلا پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے۔وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن اور ان کے حامیوں کی کامیابی کے بعد وکلا سے متعلقہ سرکاری عہدوں پر پارٹی کے ہم خیال وکلا کی کی تعیناتیوں کے لیے لسٹیں بننا شروع ہو گئی ہیں۔
Published: undefined
تازہ صورتحال نے وکلا کے لیے بغیر لمبی چوڑی تاریخی سیاسی جدوجہد کے سیاسی افق پر نمایاں مقام بنانے کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ قاف۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی سمیت ملک کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے وکلا کے ونگ بنا رکھے ہیں۔ یہ وکلاء ان سیاسی جماعتوں کو مفت قانونی امداد دے رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنے وفادار وکلا کو وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سمیت اہم عہدوں پر تعینات کرتی ہیں اور انہیں پارٹی عہدوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔
Published: undefined
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل اور کارپوریٹ امور کے ماہر نوید شاہین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف ایسا نہیں کہ وکلا اپنے مفادات کے لیے سیاسی جدوجہد میں شریک ہیں، ''بلکہ وکلا برادری ہمیشہ سے جمہوریت کی بالادستی، آئین کی پاسداری اور سول رائٹس کی حفاظت کے لیے سول اور ملٹری حکومتوں کے خلاف برسر پیکار رہی ہے۔ ایوبی دور حکومت، بھٹو دور اور جنرل مشرف کے زمانے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔‘‘ نوید شاہین کے بقول آج کے وکلا کی جدوجہد کو اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔
Published: undefined
اس سوال کے جواب میں کہ اگر وکلا برادری اتنی ہی جمہوریت کی خیر خواہ ہے تو وکلا کا ایک دھڑا اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے کھیل کا حصہ کیوں ہے؟ نوید شاہین کا کہنا تھا، ''ایک تو پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، میں صرف وکلا کی اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ جو لوگ اس کھیل کا حصہ تھے انہیں لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ انتخابات میں کس قدر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘
Published: undefined
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر شعیب شاہین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں میں وکلا کی بڑھتی ہوئی قبولیت کی وجہ یہ ہے کہ وکلا رہنما نہ تو بلیک میل ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں انصاف کی فراہمی سے زیادہ دیر محروم رکھا جا سکتا ہے: ''پاکستان میں حالیہ انتخابات میں ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں جہاں غیر جمہوری اقدامات ہوئے، انہیں پوری شدت سے عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور اس طرح غیر جمہوری قوتوں کو 'واک اوور‘ نہیں مل سکا۔ یہ صرف نظریات کی مماثلت ہے جو وکیلوں کے لیے اپنی پسند کی جماعت میں آنے کی محرک بنتی ہے‘‘
Published: undefined
لاہور ہائی کورٹ میں موجود محمد فاروق نامی ایک نوجوان وکیل نے کہا کہ وکلا کا جمہوری نظریات کے حامی ہونے والی بات صرف آدھا سچ ہے باقی سچ یہ ہے کہ جو وکیل بغیر پیسوں کے کسی کی ایک منٹ بات سننے کے روادار نہیں ہیں وہ کیسے اپنی وکالت داؤ پر لگا سکتے ہیں: ''یہ ایک نیا رجحان ہے، جس کے مطابق ایک نوجوان پہلے ایل ایل بی کرتا ہے پھر وکالت شروع کر کے کوئی سیاسی دھڑا جوائن کرتا ہے اس طرح وہ بار کی پالیٹیکس سے ہوتے ہوئے قومی سیاست میں آ جاتا ہے، اور وہ ایسے عہدے حاصل کر لیتا ہے جو طویل سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کو بھی نصیب نہیں ہوتے۔ اعظم نذیر تارڑ کا جوانی میں پاکستان کا وفاقی وزیر قانون بننا اس کی ایک مثال ہے۔ عطا تارڑ کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔‘‘
Published: undefined
کورٹ رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے سینئر صحافی عباد الحق نے اس تاثر سے اتفاق کیا کہ یہ صورتحال صرف سیاسی جماعتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وکلا کا ایک ایسا حصہ جو بالا دست طبقوں کے لیے کام کرتا ہے اس کے بھی وارے نیارے ہوتے ہیں اور ان کی وفاداری انہیں جج بھی بنا سکتی ہے۔
Published: undefined
قانونی حلقوں کے مطابق کراچی کے ایک اردو اسپیکنگ وکیل کا مشرف دور میں اور لاہور کے بہت بولنے والے ایک پنجابی وکیل کا عمران دور میں گزارا جانے والا ماضی ان کے اثر رسوخ کا گواہ ہے۔ عباد الحق کے بقول مشرف دور میں تو ''رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کے مصداق ایسے وکلا کی لسٹ کافی طویل تھی جو مکمل طور پر مبینہ غیر جمہوری رنگ میں ڈھل گئے تھے۔
Published: undefined
ایک سوال کے جواب میں اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر شعیب شاہین نے بتایا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں بڑی تعداد میں وکلا کو لے رہی ہیں: ''آپ صرف تحریک انصاف کی ہی مثال دیکھ لیں۔ شاید پی ٹی آئی کی طرف سے پندرہ کے قریب لوگوں کو انتخابی ٹکٹ جاری کیے گئے۔ جب وکیل پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تو وہ انگوٹھا چھاپ نہیں ہوتے، وہ اپنی قانون فہمی کے ذریعے مؤثر اور بہتر قانون بنانے میں مدد گار ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوری آزادیوں کو سلب کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘
Published: undefined
حالیہ دنوں میں وکلا کی ایک بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کی صف اول میں سرگرم دیکھی گئی ہے۔ عمران خان نے اپنے وکیل بیرسٹر گوہر کو ہی اپنی جماعت کا چیئرمین نامزد کیا۔ ان کو تبدیل کرنے کی کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کے بعد بھی ایک وکیل علی ظفر کا نام سامنے آیا۔
Published: undefined
ایک ایسے وقت میں جب عمران خان کے قریبی ساتھی اور سیاسی رہنما ان کی جماعت کو چھوڑ گئے تو سلمان اکرم راجہ اور شعیب شاہین جیسے وکلا کور کمیٹی میں شامل کیے گئے۔ سردار لطیف کھوسہ بھی پارٹی کے وائس چیئرمین بنائے گئے۔ حامد خان بھی اس پارٹی میں دوبارہ فعال ہو چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے حامی وکلا میں اعظم نذیر تارڑ اور نصیر بھٹہ اور ان کے کئی ساتھیوں کا نام آتا رہا ہے۔
Published: undefined
پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی اور ہمدردی رکھنے والوں میں رضا ربانی، اعتزاز احسن، فاروق نائیک اور عابد ساقی بھی شامل رہے ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے حامی وکلا میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضی اور ان کے ساتھی ہیں۔
Published: undefined
ممتاز ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وکیلوں کا سیاست میں آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں: ''وکالت کا شعبہ قانون سازی کے عمل کے قریب ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں وکیل سیاست اور پارلیمنٹ میں آتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول پاکستان تحریک انصاف کی مجبوری یہ ہے کہ ان کو شدید دباؤ اور مقدمات کا سامنا ہے، اس لیے ان کا انحصار وکلا پر بہت بڑھ گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز