پاکستان میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف اور طلباء کو مارنے پیٹنے کے خلاف بھی قانون سازی کی جا چکی مگر اسمارٹ موبائل تک ہر بچے کی رسائی کے باوجود بھی اس کی تربیت کے حوالے سے کوئی پالیسی کیوں نہیں بنائی گی؟آپ کو دوپٹہ اوڑھنا پسند ہے؟ یہ سوال میں نے انعمتہ سے تب کیا جب اس کی امی اسے مجھ سے ملوانے لائیں۔ کچھ روز قبل اس کی والدہ نے شدید پریشانی میں مجھے کال کی اور کہا مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔ اس کی والدہ نے کہا کہ وہ خود نہیں جانتی کہ اپنی بیٹی میں آنے والی اس تبدیلی کی وجہ وہ کیسے تلاش کرے۔
Published: undefined
کچھ ملاقاتوں کے بعد انعمتہ نے مجھے انسٹاگرام کا ایک پیج دکھایا، جو اس کے اسکول کے نام سے بنایا گیا تھا بس آگے صرف ’میمز‘ لفظ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ انعمتہ نے بتایا کہ اس پیج پر اسکول کے بچوں کی تصاویر، اسکول کے آفیشل پیج سے اٹھا کر مختلف کیپشنز کے ساتھ لگائی جاتی ہیں۔ انعمتہ کے ساتھ بھی یہی کیا گیا تھا۔ سانولا رنگ اور تھوڑا بھرا ہوا جسم ہونے کی وجہ سے اس کی تصاویر کے اوپر باڈی شیمنگ والے کیپشن لکھے گئے اور اسے سیاہ رنگ کی وجہ سے مختلف القابات دیے گئے۔
Published: undefined
بظاہر یہ سب صرف سوشل میڈیا تک تھا مگر اسکول میں بھی چپکے چپکے سب نے اسے اسی انداز سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انعمتہ نے اسکول سے چھٹیاں کرنا شروع کیں اور خود کو دوپٹے میں چھپانا شروع کر دیا۔یہ صرف آغاز ہے۔ ایک بچی جس کی جسمانی ساخت کی تبدیلیوں کا وقت ہے اور اس دور میں وہ کن ذہنی اذیتوں سے گزرتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مگر ایسے میں تعلیمی ادارے ہی شخصیت کو مسخ کرنے لگ جائیں تو طلباء کی ذہنی تربیت کون کرے گا؟
Published: undefined
امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق صرف 40 فیصد والدین اپنے بچوں کی ذہنی صحت کے بارے میں پریشان نظر آتے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی ذہنی صحت والدین کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے، جبکہ 35 فیصد والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کے ساتھ اسکول یا کام کی جگہ پر ناانصافی کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
یہ 2020ء کی بات ہے جب فاسٹ یونیورسٹی لاہور کے طلباء کو اسی طرح اپنی یونیورسٹی کی خواتین اساتذہ کی میمز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر عدالت سے سزا سنائی گئی تھی۔ یہاں سوال ان ننھے ذہنوں کا ہے، جو اپنی شعور کی سیڑھی پر قدم رکھ رہے ہیں مگر تہذیب، ادب آداب اور اخلاقی اقدار سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ گھر والوں سے دوری اور موبائل اور انٹرنیٹ سے قربت ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھیجنے کی ایک وجہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی اور حالت تو ہے ہی مگر دوسری اور بڑی وجہ طبقاتی امتیاز بھی ہے۔ اسی طبقاتی امتیاز میں 5 سال تک کے بچے کے پاس مہنگے والا فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ موجود ہوتا ہے۔ مگر چیک اینڈ بیلنس کے لیے والدین کے پاس وقت نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان ان میم پیجز کو سوشل میڈیا پر رپورٹ تو کر دیتے ہیں مگر طلباء کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان پیجز کے پیچھے کون ہے وہ طلباء سے سوال نہیں کر پاتے کیونکہ انہی طلباء کے والدین ان کے سب سے بڑے ڈونر ہوتے ہیں۔
Published: undefined
بلال او لیولز کا طالب علم ہے مگر اس نے پرائیویٹ امتحان دینے کا فیصلہ کیا اور اسکول چھوڑ دیا۔ والدین اس بات سے مطمئن ہو گئے کہ ہمارا بیٹا ذمہ دار ہو گیا ہے۔ بلال اپنے ہم جماعتوں میں قد میں چھوٹا تھا اور بھاری جسم رکھتا تھا۔ بلال کی طبیعت بہت دھیمی ہے اور عموما عام لڑکوں کی طرح لڑائی جھگڑے اور چھیڑ چھاڑ سے دور رہتا ہے۔ بلال نے بتایا کہ اسکول کے میم پیجز پر اس کی تصاویر کو دوپٹہ اوڑھایا گیا اور اسے خواجہ سرا کے القابات دیے گئے۔
Published: undefined
یہی نہیں بلکہ کلاس کی جس لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر وہ پڑھتا تھا اس کی بھی کردار کشی کی گئی۔ بلال کا کہنا ہے کہ میری شکایت پر ہماری کوآرڈینیٹر نے تمام طلباء سے سختی سے بات کرتے ہوئے ان پیجز کو ڈیلیٹ کرنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ ورنہ اسکول قانونی کارروائی کرے گا۔ لیکن نہ پیج ڈیلیٹ ہوا اور نہ ہی کوئی کارروائی۔ لیکن میں نے وہ سال مکمل ہونے کے بعد اسکول چھوڑ دیا تاکہ ذہنی سکون کے ساتھ اپنی پڑھائی پر توجہ دے سکوں۔
Published: undefined
ذہنی صحت کے حوالے سے عموما یہ بات سامنے آئی کہ بچوں پر پڑھائی اور گریڈز کا پریشر انہیں ذہنی بیمار بناتا ہے مگر اب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوشل میڈیا یا موبائل فون استعمال کرنے کے وقت پر نظر رکھیں کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے بھی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور منفی استعمال یقینا بچوں کے اعتماد میں بھی کمی لاتا ہے اور معاشرتی تعفن میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
Published: undefined
سوشل میڈیا کے اس بڑھتے سیلاب کو روکنا جتنا ناممکن ہے اتنا ہی ضروری بھی۔ بچوں میں باڈی شیمنگ کی وجہ سے بڑھتا خودکشی کا رحجان بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ خواتین اساتذہ کے مرد اساتذہ کے ساتھ سیکنڈل بنانا، طلباء کے آپس میں افیئرز چلانا، بچیوں کی جسامت پر جملے کسنا، ہمارے معاشرے اور نسل کو بہت بڑے ذہنی بحران کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے سب چپ ہیں۔ والدین مصروف ہیں، اساتذہ مجبور اور سوشل میڈیا کا اژدہا بے لگام ہے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined