کوئن میری کالج لندن کے سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ زحل کے چاند میماس پر برفیلی تہہ کے نیچے ایک سمندر موجود ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ سمندر 2 سے 25 ملین سال پہلے وجود میں آیا تھا۔کوئن میری کالج لندن کے ماہرین ِ فلکیات پر مشتمل ایک ٹیم کی نئی تحقیق کے مطابق زحل کے چاند میماس پر برفیلی تہہ کے نیچے ایک سمندر چھپا ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں زندگی کی نشونما ممکن ہے۔ دنیا بھر سے ماہرین فلکیات کے لیے یہ ایک چونکا دینے والی دریافت ہے، جس سے سائنسدانوں کی ''اوشین مون‘‘ یا چاند کے سمندر کی پرانی تعریف تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی سیارے کے چاند پر زندگی کی نشونما کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
Published: undefined
رواں ماہ نیچر سائنس جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنف ولیری لینی آبزرویٹوائر ڈی پیرس سے باحیثیت ماہر فلکیات وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''یہ نئی تحقیق ہمارے لیے حیران کن ہے کیونکہ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زحل کے چاند میماس پر مائع حالت میں پانی کا ہونا ممکن نہیں ہے۔‘‘ ولیری لینی کے مطابق میماس پر برفیلی تہہ اتنی موٹی ہے کہ اس کے نیچے یہ سمندر بغیر کسی واضح ایکٹیویٹی کے لاکھوں سال چھپا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ 13برس زحل کے سسٹم میں گزارنے کے باوجود کیسینی سپیس کرافٹ میماس پر اس سمندر کو دریافت نہیں کر سکا۔
Published: undefined
ولیری اور کوئن میری کالج کے سائنسدانوں کی ٹیم نے اس تحقیق کے لیے ڈیٹا کیسینی سپیس کرافٹ سے حاصل ہونے والے مواد سے لیا تھا۔ اس خلائی گاڑی کو 2017ء میں مشن مکمل ہو جانے کے بعد زحل کی سطح سے ٹکرا کر تباہ کر دیا تھا۔ ولیری بتاتے ہیں کہ 2010ء میں ان کی ٹیم زحل کے رنگز میں بریک یا فاصلے پر تحقیق کر رہی تھی، جسے سائنسی اصطلاح میں''کیسینی ڈویژن‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا ان رنگز میں بریک میماس کے مدار میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
Published: undefined
ولیری کے مطابق زحل کے رنگز اربوں پارٹیکلز پر مشتمل ہیں، جن میں بہت سے بریک اور سٹرکچر ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زحل کے چاندوں کی حرکت کے باعث رونما ہوئے ہیں۔ سائنسدان اس پر ایک عرصے سے تحقیق میں مصروف ہیں، جس کے لیے کیسینی سے حاصل شدہ ڈیٹا کا از سر نو تجزیہ کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
ولیری لینی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 2010ء میں ان کی ٹیم نے میماس کے مدار اور گردش میں ایک حیران کن تبدیلی نوٹ کی، ''چار سال کے تجزیے کے بعد 2014ء میں ان کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ زحل کے اس چاند کی اندرونی سطح ٹھوس پتھریلی ہے یا پھر یہاں زیر زمین کوئی سمندر ہے، جس کے باعث اس کا اوپری شیل یا خول اندرونی سطح کے اثر سے آزاد بلا واسطہ حرکت کرتا ہے۔
Published: undefined
لینی بتاتے ہیں کہ اس حوالے سے پہلی پیش رفت اس وقت ہوئی، جب ان کی ٹیم نے میماس کی حرکت کا ایک مکمل ماڈل تیار کیا۔ اس ماڈل اور مزید کئی سال کی تحقیق سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ میماس کی پتھریلی سطح والا مفروضہ حقیقیت سے بالکل الٹ معلومات دیتا ہے۔ لہذا غالب امکان ہے کہ میماس پر زیر زمین کہیں کوئی سمندر موجود ہے، جو کسی وجہ سے کیسینی سپیس کرافٹ ڈیٹیکٹ نہیں کر سکا۔
Published: undefined
ولیری لینی کے مطابق میماس کا تقریبا 50 فیصد حصہ اس سمندر سے گھرا ہوا ہے، جو اس چھوٹے سے سیٹیلائٹ کے حساب سے ایک بڑا رقبہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نئی تحقیق سے میماس زحل کے دوسرے چاند انسلیدس سے مماثل ثابت ہوا ہے، جہاں زیر زمین سمندر چند سال قبل دریافت کیا جا چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں چاندوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ انسلیدس کے سمندر سے اونچے فوارے اور جھاگ اڑتے ہیں جبکہ میماس کا یہ نوزائیدہ سمندر ابھی برفیلی تہہ کے نیچے چھپا ہوا ہے۔
Published: undefined
زحل کا چھوٹا سا چاند میماس ایک عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز ہے، جسے ''ڈیتھ سٹار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ چاند دیکھنے میں ''سٹار وارز‘‘ سیریز میں دکھائے جانے والے ڈیتھ سٹار کی طرح خوفناک لگتا ہے۔ سٹار وارز سیریز میں ایک خلائی ہتھیار کو ڈیتھ سٹار کا نام دیا گیا تھا، جو سیاروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ماہرین کے مطابق میماس پر پہلی نظر پڑتے ہی ڈیتھ سٹار کا خیال آتا ہے اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
Published: undefined
لینی کہتے ہیں کہ یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ بظاہر ڈیتھ سٹار نظر آنے والے آبجیکٹ کو آباد کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں زندگی کے لیے لازمی اجزاء میں سے چند موجود ہیں۔ ان کے مطابق دریافت کا یہ سفر ابھی رکا نہیں ہے، ''ہمارے نظام شمسی اور اس سے باہر کتنے ہی ایسے اجسام ابھی دریافت کے منتظر ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز