ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں باون فیصد غیر مسلم طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رپورٹ تیار کرنے والوں کے مطابق اس رپورٹ نے مسلم اداروں کے حوالے سے بے بنیاد الزامات کو غلط ثابت کردیا ہے۔ دہلی کے ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (سی ایس آر) انڈیا نے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد مسلم طلبہ کے مقابلے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر مسلم طلبہ کی تعداد52.7 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔
Published: undefined
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اور دائیں بازو کی تنظیمیں دیگر مسلم اداروں کے اقلیتی کردار کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔
Published: undefined
سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان کے مطابق اس رپورٹ نے اس غلط تصور کو پاش پاش کردیا ہے کہ مسلم کالجوں میں صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں کہا،"میں اس رپورٹ کو 'متھ بسٹر' کہتا ہوں کیونکہ ملک میں وسیع پیمانے پر یہ پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں تو صرف مسلم بچے اور بچیاں ہی پڑھتی ہیں۔ جبکہ اعدادوشمار سے ظاہرہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے مقابلے غیر مسلم لڑکیوں بھی تعداد زیادہ ہے۔"
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ یہ رپورٹ حکومت کے مختلف اداروں ا ور تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ 'اطلاعات کا حق' (آر ٹی آئی) کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ ڈاکٹر رضوان کے مطابق سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 1113 یونیورسٹیز میں 23 مسلم اقلیتی ہیں، جہاں ہندو طلبہ کی تعداد 52.7 فیصد اور مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔ اسی طرح 1115 مسلم اقلیتی کالجوں میں غیر مسلم طلبہ اکثریت میں ہیں۔ ان کالجوں میں ہندو طلبہ کی تعداد 55.1 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف42.1 فیصد ہے۔ دیگر اقلیتی گروپ کے 2.8 فیصد طلبہ بھی مسلم تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ تعلیمی سال 2021-22 میں مسلمانو ں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکوں کی تعداد 47.18 فیصد اور لڑکیوں کی تعداد 52.8 فیصد تھی۔
Published: undefined
ڈاکٹر محمد رضوان کا کہنا تھا کہ بعض مسلم تعلیمی اداروں میں پروفیشنل کورسیز میں توغیر مسلم طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔"علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد 65 فیصد سے زیادہ ہے اور مسلم طلبہ صرف 35 فیصد ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں بھی پروفیشنل کورسیز میں غیر مسلم طلبہ کی تقریباً یہی صورت حال ہے۔"
Published: undefined
ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ اس رپورٹ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ بے بنیاد اسباب کی بنا پر اقلیتی اداروں کے کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی سوچ درست نہیں ہے۔ "اس رپورٹ نے'واٹس ایپ یونیورسٹی' کے ذریعہ پھیلائی جانے والی افواہوں کو بے بنیاد ثابت کر دیا ہے۔ دراصل ہندو طلبہ اور ان کے والدین کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ انہیں جب کوئی اچھا، گھر کے نزدیک اور کم فیس والا کالج ملتا ہے تو وہ ہندو یا مسلمان کی نگاہ سے اسے نہیں دیکھتے۔"
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ کی تیاری کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ غیر مسلم لڑکیوں کے والدین اپنی بچیوں کو مسلم تعلیمی اداروں میں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "مسلم تعلیمی اداروں میں تکنیکی کورسز میں 55 سے 60 فیصد غیر مسلم طلبہ ہیں۔ صرف جنرل کورسز میں مسلم طلبہ کی تعداد 60 فیصد ہے جب کہ ٹیکنیکل کورسز میں غیر مسلم طلبہ کی اکثریت ہے۔"
Published: undefined
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی قیادت والی سچر کمیٹی نے سن 2006 میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں چھ سے چودہ برس عمر کے 25 فیصد مسلم بچوں نے یا تو کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا یا تعلیم مکمل نہیں کرپائے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی بیس سال سے زیادہ عمر کے غیر مسلم طلبہ کی تعداد سات فیصد کے مقابلے مسلم طلبہ کی تعدادچار فیصد سے بھی کم تھی۔ رپورٹ سے یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، این آئی ٹی اور آئی آئی آئی ٹی جیسے اہم تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ کی تعداد دو فیصد سے بھی کم ہے۔
Published: undefined
سی ایس آر انڈیا کی این او یو ایس نیٹ ورک کے تعاون سے تیار کردہ یہ رپورٹ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اور شدت پسند ہندو تنظیموں سے قربت رکھنے والے ایک طبقے کی اس دقیانوسی نظریے کو توڑنے کے لیے اہم سمجھی جارہی ہے، جن کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں صرف مسلم طلبہ ہی پڑھتے ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم ادارے نہ صرف تعلیمی لحاظ سے پسماندہ مسلم کمیونٹی کی خدمت کرتے ہیں بلکہ ہندو کمیونٹی کے طلبہ کی بھی یکساں طورپر تعلیمی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں۔ سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ "تمام کمیونٹیز میں تعلیم کو پھیلانے میں مسلم اداروں کا کردار کسی سے کم نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ سوالیہ نشان لگاتے ہیں وہ دراصل فرقہ وارانہ جنون کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز