DW

بہت کم عمر بچوں کو ہاسٹل بھیجنا درست؟

ایک ایسی عمر میں، جب ابھی دودھ کے دانت بھی نہ ٹوٹے ہوں، کسی بچے کے لیے گھر اور اہل خانہ سے دوری ایک ایسا دکھ ہے،جس کی تلافی کوئی بھی مثبت تجربہ نہیں کر سکتا۔

بہت کم عمر بچوں کو ہاسٹل بھیجنا درست؟
بہت کم عمر بچوں کو ہاسٹل بھیجنا درست؟ 

بورڈنگ اسکول کا یہ وہ دور تھا جب میں نے اپنی ابتدائی عمر کے کئی سال اپنے اہل خانہ سے دور گزارے اور اس دور کا جذباتی نقصان میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ وقت بہت اچھا بھی تھا اور بہت مشکل بھی۔پاکستان میں والدین کا اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے کسی بورڈنگ اسکول بھیجنا زیادہ عام تو نہیں مگر یہ کوئی بہت غیر معمولی فیصلہ بھی نہیں ہوتا۔ سبھی والدین کی یہ خواہش تو ہوتی ہی ہے کہ ان کے بچے بہتر سے بہتر اداروں میں تعلیم حاصل کریں۔

Published: undefined

حصول تعلیم کے لیے بورڈنگ اسکولوں کا رواج کم از کم جنوبی ایشیا میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں شروع ہوا، جب برطانوی سول اور فوجی افسران اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں بھیجتے تھے اور وہاں علیحدہ اسکولوں میں کم عمر طلبہ و طالبات کو ہر قسم کی سہولیات بھی میسر ہوتی تھیں۔

Published: undefined

پھر نوآبادیاتی دور میں ہی برٹش انڈیا کے بہت سے راجوں مہاراجوں، نوابوں، سرداروں اور امراء نے بھی اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ ایسے بورڈنگ اسکولوں کا آغاز تو مسیحی مشنریوں نے کیا تھا مگر بعد میں ایسے بہت سے غیر مشنری تعلیمی ادارے بھی کھل گئے تھے۔

Published: undefined

کسی بھی بورڈنگ اسکول میں کم عمری میں حصول تعلیم کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ بچے نظم و ضبط کے ساتھ اپنا کام خود کرنا اور خود انحصاری سیکھ لیتے ہیں اور یوں ان کی شخصیت میں ایک مخصوص انفرادیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح مستقبل کے لیے ان کی پرورش مختلف طور پر اور یوں قدرے بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔

Published: undefined

ذاتی طور پر میں نے پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر بہاول پور میں ایک مشہور بورڈنگ اسکول، صادق پبلک اسکول میں نو سال گزارے اور اس عرصے نے میری شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑے۔ تب میرے والد اپنی سرکاری ملازمت کی وجہ سے سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات رہے تھے اور اسی لیے مجھے صرف چار سال نو ماہ کی عمر میں سندھ سے دور پنجاب کے اس بورڈنگ اسکول میں داخل کرایا گیا تھا۔ وجہ میرے والد کی یہ سوچ تھی کہ میری یا میرے بڑے بھائی کی تعلیم ان کے بار بار کے سرکاری تبادلوں سے متاثر نہ ہو۔

Published: undefined

یہ اتنی چھوٹی عمر میں ہی ہاسٹل میں رہنے کا نتیجہ تھا کہ مجھے نہ صرف پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے بچوں بلکہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے ساتھ بھی حصول تعلیم اور گھلنے ملنے کا موقع ملا، جس کا آج دیکھا جائے تو مجھے بہت فائدہ ہوا۔ اس تجربے سے مجھے یہ فائدہ بھی ہوا کہ میں بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے سے بڑوں اور چھوٹوں، سب کے ساتھ احترام اور خود اعتمادی کے ساتھ گفتگو کرنے کا عادی ہو گیا تھا۔ لیکن وہ دور بہت اچھا ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مشکل بھی تھا۔ اس مشکل کا ایک مثبت رخ یہ بھی تھا کہ میری ذات میں یہ خصوصیت بھی پیدا ہو گئی تھی کہ مشکل وقت کو تعمیری سوچ اور رویے کے ساتھ آسان کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

اس دور کی سب سے مشکل بات اور آج تک پوری نہ ہونے والی بڑی کمی یہ رہی کہ ہوسٹل میں قیام کے عرصے میں میں اپنے اہل خانہ سے دوری کے باعث ان کے اس پیار، محبت اور شفقت سے زیادہ تر محروم ہی رہا، جو اگر میں گھر میں ہی رہتا تو مجھے لازمی طور پر ملنا ہی تھے۔ تب مجھے والدین اور دیگر اہل خانہ سے جسمانی قربت کی بہت بڑی خوشی مہینوں بعد اور محض چند روز کے لیے ہی ملتی تھی۔ آج اگر پلٹ کر دیکھوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کس طرح بہت چھوٹی عمر کے ہر بچے میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی مسلسل قربت کی خواہش کتنی شدید ہوتی ہے۔

Published: undefined

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ میں نے ہاسٹل میں قیام کے باعث بہت سے قابل اعتماد قریبی دوست بھی بنائے لیکن چھٹیوں کے بعد سندھ میں گھر سے واپس صادق پبلک اسکول لوٹنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا تھا۔ یہ احساس کہ اگلی مرتبہ پھر کئی مہینوں بعد ہی آنا ہو سکے گا، دل و دماغ میں چبھتا رہتا تھا۔ اسی لیے میں چاہے کراچی یا سکھر سے بذریعہ ہوائی جہاز بہاولپور آتا یا بذریعہ ٹرین روہڑی سے بہاولپور، ایئر پورٹ اور ریلوے سٹیشن پر اہل خانہ کو گلے ملنا اور الوداع کہنا ہمیشہ دونوں طرف ہی آنسوؤں سے بھرپور جذباتی منظر ہوا کرتا تھا۔

Published: undefined

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کم عمری میں بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے فوائد تو ہیں، لیکن ایک ایسی عمر میں، جب ابھی دودھ کے دانت بھی نہ ٹوٹے ہوں، کسی بچے کے لیے گھر اور اہل خانہ سے دوری ایک ایسا دکھ ہے،جس کی تلافی کوئی بھی مثبت تجربہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں خود اپنے بچوں کو کبھی اتنی چھوٹی عمر میں کسی بھی بورڈنگ اسکول میں نہیں بھیجوں گا۔ عمر بہت چھوٹی ہو، ذہن کچا اور کسک شدید، تو محرومی عمر بھر نہ مٹنے والے نشان چھوڑ جاتی ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined