بھارت کے بیشتر مسلم رہنماؤں نے ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ سے متعلق بل کی منظوری کی شدید مخالفت کی ہے۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانون، جو شریعت کے خلاف ہو، مسلمانوں کو منظور نہیں ہے۔بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا بل ایوان میں پیش کیا تھا، جسے سات فروری بدھ کے روز منظور کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اتراکھنڈ یکساں سول کوڈ کو منظور کرنے والی بھارت کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔
Published: undefined
یہ قانون شادی، طلاق، جانشینی، وراثت اور لیو ان ریلشنز جیسے سویلین معاملات کے لیے ہے، جو پہلے مذہب کی بنیاد پر مسلم پرسنل لاء یا خصوصی ہندو قوانین کے تحت حل کیے جاتے تھے۔ مثلاً مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں پر ایسے امور میں شرعیہ قوانین کا نفاذ ہوتا تھا۔ تاہم حکومت نے ان کی جگہ اب سب کے لیے یکساں قانون وضع کر دیا ہے، البتہ ریاست کی قبائلی برادری کو اس سے مستثنی رکھا گیا ہے - کہا جا رہا ہے کہ اس قانون سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوں گے۔
Published: undefined
کامن سول کوڈ کے اس قانون کے تحت دو شادیاں کرنا غیر قانونی ہو گا۔ طلاق اور شادی سے متعلق مذہبی نہیں بلکہ ریاستی قانون پر عمل ہو گا۔ مثلاً طلاق کے بعد ایک مسلم خاتون کو عدت گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ طلاق کے فوری بعد جب چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ تین طلاق پر بھارتی حکومت پہلے ہی پابندی عائد کر چکی ہے اور اب ریاستی قانون کے تحت حلالہ کرنے پر بھی پابندی عائد ہو گی۔ کزن، یعنی چچا زاد، پھوپی زاد، خالہ زاد اور ماما زاد بہنوں، سے بھی شادی ممنوع ہو گی۔ وراثت میں اب بیٹے اور بیٹیوں کو برابر کا حق ہو گا، یعنی جنسی تفریق کو ہٹانے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ مسلمان اس حوالے سے شریعت اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔
Published: undefined
بدھ کے روز اسمبلی اجلاس کے اختتام پر اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر دھامی نے صحافیوں سے بات چیت میں اس قانون کی تعریف کی اور کہا کہ "یہ قانون مساوات، یکسانیت اور مساوی حقوق کے لیے ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا، "یکساں سول کوڈ شادی، پرورش، وراثت اور طلاق جیسے معاملات میں بغیر کسی امتیاز کے سب کو برابری کا حق دے گا۔ یہ بنیادی طور پر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کا سد باب کرے گا۔"
Published: undefined
وزیر اعلی نے کہا کہ "اس بارے میں بہت سے شکوک و شبہات بھی تھے لیکن اسمبلی میں دو دن کی بحث نے سب کچھ واضح کر دیا، یہ قانون کسی کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ان خواتین کے لیے ہے جنہیں سماجی مسائل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو گا۔ یہ قانون خواتین کی ہمہ گیر ترقی کے لیے ہے۔" "یہ بل پاس ہو گیا ہے۔ ہم اسے گورنر کے پاس بھیجیں گے اور ان کے دستخط ہوتے ہی ہم اسے ریاست میں ایک قانون کے طور پر نافذ کر دیں گے۔"
Published: undefined
یو سی سی بل کو جب چھ فروی منگل کے روز ایوان میں پیش کیا گیا تھا، تو سب سے پہلے بھارت کی معروف مسلم تنظیم جمعیت علماء ہند نے اس کی مخالفت میں صدا بلند کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ تنظیم کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس قانون سے "شریعت کے اصولوں کو براہ راست خطرہ لاحق ہے اور مذہبی تعلیمات سے متصادم کوئی بھی قانون مسلم کمیونٹی کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔"
Published: undefined
انہوں نے بھارت میں سیکولرازم کی ممکنہ خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی کے نفاذ سے "بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔" مولانا مدنی نے اپنے شدید ردعمل میں کہا کہ " کوئی بھی ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو، ہمیں منظور نہیں ہے، کیونکہ مسلمان ہر چیز سے تو سمجھوتہ کر سکتا ہے، اپنی شریعت اور مذہب سے ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ہے۔"
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کا جو بل منظور ہوا ہے، اس میں درج فہرست قبائل کو بھارتی آئین کی دفعہ 366 کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے اور یہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔
Published: undefined
مولانا ارشد مدنی نے سوال کیا کہ اگر "آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جا سکتا ہے، تو آئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔" انہوں نے اسے مسلمانوں کے ساتھ ایک امتیازی سلوک سے تعبیر کیا۔
Published: undefined
سات فروری بدھ کے روز ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اس قانون کے خلاف ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ "ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔"
Published: undefined
بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ "بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون مسلم برادری کو ٹارگیٹ کرنے کے لیے لایا گیا ہے، کیونکہ دوسروں کو تو اس کے تحت کافی امور میں استثنی حاصل ہے۔" ان کا کہنا ہے کہ وفاقی سطح پر کئی ایسے قوانین پہلے سے موجود ہیں، جن کے تحت شرعیہ ایکٹ کو تحفظ حاصل ہے، تو سوال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے جو قوانین ہیں ان کو ریاست کیسے ختم کر سکتی ہے۔ "ریاست مرکزی قوانین کی مخالفت کرنے یا اسے میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔"
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ وراثت کے سلسلے میں بھی مسلمانوں کے پاس ایک مکمل قانون ہے اور وہ بھی وفاقی قانون کے تحت محفوظ ہے، تو اس میں ترمیم کا حق ریاست کو کیسے حاصل ہے۔ "جنسوں کے درمیان وراثت کے حقوق کی برابری، جو کہ اسلامی قانون کے ان اصولوں سے متصادم ہے، جو قرآن میں موجود ہیں۔" انہوں نے ڈي ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ اترا کھنڈ کی بی جے پی حکومت نے یہ قانون سیاسی مقاصد کے لیے منظور کیا ہے، تاکہ "آنے والے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔"
Published: undefined
آل انڈيا مسلم مجلس کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی اس بل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ "اترا کھنڈ کے یو سی سی قانون کا سب پر نفاذ ایک ہندو کوڈ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔" انہوں سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک طویل پوسٹ میں یہ بھی دعوی کیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ "ہندو غیر منقسم خاندان (ان ڈیوائڈیڈ ہندو فیلمی ایکٹ) کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ کیوں؟ اگر آپ جانشینی اور وراثت کے لیے یکساں قانون چاہتے ہیں تو ہندوؤں کو اس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا کوئی قانون اس صورت میں بھی یکساں ہو سکتا ہے، جب ریاست کی اکثریت پر وہ لاگو نہ ہوتا ہو؟"
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اور بھی کئی آئینی اور قانونی مسائل ہیں اور قبائلیوں کو اس سے کیوں الگ رکھا گیا؟ اگر ایک کمیونٹی کو مستثنیٰ حاصل ہے، تو کیا یہ یکساں ہو سکتا ہے؟" اترا کھنڈ میں اپوزیشن کانگرس پارٹی نے اس بل کی کوئی خاص مخالف نہیں کی، البتہ اس کے ایک رکن پارلیمان کارتی چدامبرم نے اس پر تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، " اتراکھنڈ ہندوتوا کے لیے ٹیسٹ لیب ہے۔"
Published: undefined
بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے بھی اس پر تنقید کی اور کہا کہ "پارلیمنٹ یونیفارم سول کوڈ کو شہریوں پر "مسلط" نہیں کر سکتی کیونکہ آئین ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ کامن سول کوڈ پر جاری بحث سے یہ واضح ہے کہ ایک بار پھر یہ مسئلہ وسیع تر سماجی تناؤ اور سیاسی ایجنڈوں کے لیے ایک فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اور مذہبی مسائل کھڑے کر کے ملک کی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو، مسلسل خوف اور انتشار میں مبتلا رکھنا چاہتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined