عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق، والدین کو بچوں کا اسکرین ٹائم کم سے کم کرنے اور فارغ اوقات میں کھلی فضا میں کھیلنے کودنے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ بچے دماغی اور جسمانی طور پر تندرست رہیں۔ ٹیکنالوجی جہاں بنی نوع انسان کی روز مرہ زندگی میں بے پناہ آسانیاں لائی ہے وہیں اس کی بدولت معاشرتی رویوں میں بھی بدلاؤ آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل والدین کی تربیت کا انداز بھی کچھ بدل گیا ہے۔
Published: undefined
تین دہائیاں پہلے کی بات ہے، پاکستان میں صرف ایک سرکاری ٹیلی وژن چینل ہوا کرتا تھا۔ مخصوص اوقات میں چند پروگرام نشر ہوتے تھے اور اس میں بچوں کا حصہ بھی مخصوص ہوتا تھا جس کا دورانیہ بھی ایک دو گھنٹے تک محدود تھا۔ پھر اس کے بعد پرائیویٹ چینلز کی آمد ہوئی۔ کیبل اور ڈش پر آنے والے انٹرٹینمنٹ چینلز کے سیلاب میں بچوں کے پروگراموں کے اصول بھی بدل گئے۔
Published: undefined
ٹی وی سے معاملہ موبائل اور انٹرنیٹ تک آیا تو چند برس پہلے کی روایات صدیوں پرانی ہو گئیں۔ اب بچے اسکول سے آتے ہی موبائل فون، ٹیبلٹ یا ایکس باکس کے ریموٹ اٹھا لیتے ہیں۔ باقی دن کے سبھی کام جن میں کھانا، پینا، تفریح اور حتیٰ کے اسکول کی طرف سے دیا گیا گھر کا کام بھی اسکرین کے سامنے ہی ہوتا ہے۔ یہ رویہ معاشرے کے تمام طبقات کے بچوں میں عام پایا جاتا ہے، بس مختلف طبقات میں اس کا اظہار بھی ذرا مختلف ہے۔
Published: undefined
نئی مائیں تو بہت ہی چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لیے خود ہی فون، ٹیبلٹ پکڑا دیتی ہیں جو آگے چل کر ان کی مستقل عادت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بچوں میں اسکرین کا زیادہ استعمال اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جو ان کے ننھے دماغوں اور نفسیات پہ بہت منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
Published: undefined
عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق، والدین کو بچوں کا اسکرین ٹائم کم سے کم کرنے اور فارغ اوقات میں کھلی فضا میں کھیلنے کودنے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ بچے دماغی اور جسمانی طور پر تندرست رہیں۔ اسکرین کے زیادہ استعمال اور مار کٹائی، جھگڑے یا جنگ و جدل پر مبنی گیمز سے آج کل بچوں میں چڑ چڑا پن عام ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے ان میں غیر مستقل مزاجی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
Published: undefined
بچے کے زندگی کے ابتدائی سال اس کی پوری زندگی پہ اثر انداز ہوتے ہیں، جس میں وہ لوگوں اور رویوں کو سمجھتا ہے۔ اس عمر میں اگر والدین اس کو وقت دینے کی بجائے موبائل یا ٹی وی اسکرین کے ساتھ چھوڑ دیں گے تو اس کی آئندہ زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بڑی عمر کے افراد بھی جو نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں، ان نفسیاتی مسائل کے ڈانڈے کسی نہ کسی وجہ سے ان کے بچپن سے ہی جڑے ہوتے ہیں۔
Published: undefined
موجودہ دور میں جب والدین خود پورا دن اسکرین سے جڑے رہتے ہیں تو ایسے میں وہ اپنے بچوں کو اسکرین سے کیسے دور رکھ سکتے ہیں؟ بچے گھر اور کمیونٹی میں جو ماحول دیکھتے ہیں اسی کو اپناتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے رویے میں تبدیلی لانی ہے تو پہلے بڑوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔
Published: undefined
12 سے 15 سال کی عمر، بچوں کی تربیت سازی کے اعتبار سے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر کے بچے گھر کے علاوہ زیادہ تر اپنے دوستوں تک محدود ہوتے ہیں، انھیں ان کے مزاج کے حساب سے غلط صحیح سمجھانا چاہیے۔
Published: undefined
وہ کیا دیکھ رہے ہیں، کن ویب سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں، کیسی گیمز کھیلتے ہیں، انہیں روکنے کی بجائے اگر شروع سے 'پیرنٹل کنٹرول ایپلیکشنز‘ کے ذریعے استعمال کا عادی بنائیں گے تو آئندہ آپ کے لیے مشکل پیش نہیں آئے گی۔ حد درجہ سختی انھیں ممنوعہ راستوں کی جانب بھی راغب کر سکتی ہے۔ ہر وقت احکامات دینے کی بجائے کچھ ان کی مان لیں، کچھ اپنی منوا لیں۔ ان پر اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی مسئلے یا پریشانی میں بات چھپانے یا کوئی انتہائی قدم اٹھانے کی بجائے خود آپ سے شیئر کریں۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined