اقوام متحدہ کے حقائق کی تلاش کرنے والے ایک مشن نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دے دی ہے۔ اس مشن کے مطابق یہ کریک ڈاؤن ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے مترادف ہے۔عالمی ادارے کے اس مشن نے ایرانی خواتین کے حقوق کے لیے ملک بھر میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کے بھرپور اور 'سفاکانہ‘ استعمال سے متعلق کہا کہ یہ کریک ڈاؤن 'انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تہران میں ملکی حکومت کے اقدامات سے متعلق جاری کردہ کسی بین الاقوامی رپورٹ میں ایسی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔
Published: undefined
عالمی ادارے کے حقائق کی تلاش کرنے والے جس غیر جانبدار بین الاقوامی مشن نے ایران میں حکومت کی طرف سے حقوق نسواں کی ملک گیر تحریک کے خلاف اقدامات کا جائزہ لیا، اس نے اپنی رپورٹ اسی ہفتے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایک باقاعدہ اجلاس میں پیش کی۔
Published: undefined
اس رپورٹ کی ضخامت 300 صفحات سے زیادہ ہے اور اس میں بین الاقوامی ماہرین نے یہ تفصیلات بتائی ہیں کہ ایرانی حکومت نے کس کس طرح مظاہرین کے خلاف جبر و تشدد کا سفاکانہ استعمال کیا۔ حقائق کا تعین کرنے والے اس مشن کی خاتون سربراہ سارہ حسین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ چند واقعات میں تو ایرانی حکام نے جو کچھ کیا، وہ 'انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
Published: undefined
ایران میں 22 سالہ کرد نژاد خاتون مھسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی ملک گیر احتجاجی تحریک کے آغاز کے دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اپنا یہ تفتیشی مشن نومبر 2022ء میں اس لیے تشکیل دیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں 'انسانی حقوق کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال‘ کا جامع طور پر جائزہ لیا اور ملکی عوام کے خلاف ممکنہ جرائم کو دستاویزی شکل میں ریکارڈ کیا جا سکے۔
Published: undefined
جن دنوں جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل نے یہ مشن تشکیل دیا تھا، تب یہ عمومی شبہ پیدا ہو چکا تھا کہ ملک میں 'زن، زندگی، آزادی‘ کے موٹو کے ساتھ جاری احتجاجی تحریک کے دوران ایران حکام مظاہرین کے خلاف غیر متناسب حد تک زیادہ ریاستی طاقت استعمال کر رہے تھے۔
Published: undefined
اس تناظر میں تفتیشی مشن کی سربراہ سارہ حسین نے جنیوا میں عالمی ادارے کی ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا، ''ان ریاستی کارروائیوں کے دوران جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔‘‘ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ماہر قانون سارہ حسین کے مطابق ایران میں اس کریک ڈاؤن کے دوران ماورائے عدالت قتل کیے گئے، تشدد اور ریپ کیا گیا، لوگ جبری طور پر غائب کر دیے گئے اور صنفی تخصیص کی بنیاد پر مظاہرین کو عتاب کا نشانہ بنانے کی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں۔
Published: undefined
ان حقائق کے برعکس تہران حکومت کی طرف سے ہمیشہ اس بات کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ حکام نے احتجاجی تحریک کے دوران مظاہرین کے خلاف طاقت کا کوئی بےجا استعمال کیا یا پھر یہ کہ مھسا امینی کی موت دوران حراست کیے جانے والے تشدد کا نتیجہ تھی۔
Published: undefined
لیکن دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ حقائق کا تعین کرنے والے غیر جانبدار بین الاقوامی مشن کے مطابق مھسا امینی کو ایران کی ''اخلاقی پولیس کی حراست میں‘‘ مار مار کر ہلاک کیا گیا۔
Published: undefined
سارہ حسین نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے اس مشن نے اپنی رپورٹ کی تیاری کی عمل میں بہت سے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا معائنہ اور تجزیہ کیا۔ انہوں نے بتایا، ''ہم نے حکومتی دستاویزات اور سرکاری اہلکاروں کے عوامی سطح پر دیے گئے بیانات کا بھی تجزیہ کیا اور ان کئی رپورٹوں کا بھی جائزہ لیا، جو ایران میں انسانی حقوق کی اعلیٰ کونسل نے تیار کی تھیں۔‘‘
Published: undefined
بیرسٹر سارہ حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اپنی حتمی رپورٹ کی تیاری سے قبل 134 عینی شاہدین کے بیانات کا تجزیہ کر کے اس کے نتائج بھی اس دستاویز میں شامل کیے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل سوشل میڈیا اور قانونی دستاویزات سے حاصل ہونے والی معلومات کا بھی سہارا لیا۔‘‘ انہوں نے کہا، ''ہمارے مواد کی بنیاد یہی تمام ذرائع تھے۔ ہم نے بنیادی اور ثانوی ذرائع سے موصولہ اطلاعات سے نتائج اخذ کیے اور انہی کی مدد سے ہم اپنے تحقیقاتی مشن کے لیے ایک ٹھوس بنیاد مہیا کر سکے۔‘‘
Published: undefined
اس تفتئیشی عمل کے دوران جن گواہوں نے مشن کے سامنے بیانات دیے، ان میں سے ''بہت سے گواہان کے جسموں پر ابھی تک ایسے نشانات ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ایرانی سکیورٹی فورسز نے ان کو ٹارگٹ کر کے ان پر فائرنگ کی۔‘‘
Published: undefined
یو این ہیومن رائٹس کونسل کے لیے تیار کردہ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں حقوق نسواں کی 'زن، زندگی، آزادی‘ نامی تحریک کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 551 افراد مارے گئے، جن میں سے کم از کم 49 خواتین تھیں اور 68 بچے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ اس کریک ڈاؤن کے دوران خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سارہ حسین نے جینوا میں انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ یہ تمام کارروائیاں ایرانی حکام کی طرف سے ''سویلین آبادی کے خلاف ایک منظم حملے‘‘ کا حصہ تھیں۔
Published: undefined
اس رپورٹ میں تفتیشی مشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایرانی حکومت سیاسی مخالفین، منحرفین اور مظاہرین کو موت کی سزائین دینے کا سلسلہ بند کرے اور ان تمام شہریوں کو بھی رہا کرے، جو ان مظاہروں کے بعد سے جیلوں میں بند ہیں۔ مزید یہ کہ کریک ڈاؤن کے متاثرین کے خاندانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی ختم کیا جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز