ڈوئچے بینک کے سی ای او نے جرمنی کے یورپی یونین سے علحیدہ ہونے کے خیال کو "انتہائی خطرناک" قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پورپ جرمنی کا "سب سے بڑا ٹرمپ کارڈ ہے"۔ڈوئچے بینک کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کرسچن سیوئنگ نے جرمنی میں بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی انتہا پسندی کے پیش نظر پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رویے ملکی معیشت کے لیے بھی خطرہ ہو سکتے ہے۔
Published: undefined
سیوئنگ، جو 'ایسوسی ایشن آف جرمن بینکس' کے صدر بھی ہیں، نے یہ بیان جرمن اخبار 'ویلٹ ام زونٹاگ' کو ایک انٹرویو کے دوران دیا۔ ہفتے کو شائع ہونے والے اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، "نفرت اور نسل پرستی کے لیے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔" سیوئنگ نے مزید کہا کہ اگر اس مسئلے کو اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو اس طرح کے رویوں کے خلاف کھڑے ہونے کی متعدد وجوہات ملتی ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کہ جرمنی کی "قابل اعتماد جمہوری اقدار اور ڈھانچے" کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار بھی یہاں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن وہ اب ہی سے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آیا وہ ان جمہوری اقدار پر طویل مدت کے لیے اعتماد کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
سیوئنگ کا مزید کہنا تھا کہ اگر جرمنی غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے ایک "پرکشش مقام" ہے، تو دائیں بازو کی انتہا پسندی کے باعث یہاں ہنر مند افراد کی کمی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے جرمنی کے یورپی یونین سے علحیدہ ہونے کے خیال کو "انتہائی خطرناک" اور "اقتصادی خرافات" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر سمجھداری کے ساتھ نہیں سوچا گیا ہے۔ سیوئنگ نے اس خیال کو "ڈیگزٹ" کا نام دیا اور اس کا موازنہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے عمل "بریگزٹ" سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے برطانوی معیشت پر منفی اثرات صاف ظاہر ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پورپ جرمنی کا "سب سے بڑا ٹرمپ کارڈ ہے"۔
Published: undefined
سوئنگ کا "ڈیگزٹ" کے حوالے سے یہ موقف دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت 'آلٹرنیٹو فار جرمنی' کی لیڈر ایلس وائڈل کے ایک بیان کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس بیان میں وائڈل نے کہا تھا کہ اگر ان کی جماعت حکومت میں آتی ہے تو وہ یورپی یونین میں اصلاحات اور اس کے رکن ممالک کو دوبارہ خود مختار بنانے کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ان کوششوں کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلنے کی صورت میں جرمنی کے یورپی یونین میں رہنے کے کے حوالے سے ایک ریفرنڈم ہونا چاہیے، جیسے برطانیہ میں 2016ء میں ہوا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز