پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کرنے اور ’سفید پرچم اٹھانے کی ہمت ہونی چاہیے۔‘ ماسکو نے پوپ کے ان بیانات کو ’مذاکرات کا ایک موقع‘ قرار دیا ہے، جبکہ جرمنی نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا ہے۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ اور جرمنی کے اعلیٰ ترین سیاستدانوں نے یوکرین جنگ سے متعلق پوپ فرانسس کے حالیہ اس بیان پر شدید نکتہ چینی کی ہے، جس میں انہوں نے یوکرین سے روس کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
Published: undefined
کیتھولک مسیحییوں کے روحانی پیشوا، پاپائے روم پوپ فرانسس نے گزشتہ ماہ ریکارڈ کیے گئے ایک انٹرویو میں یوکرین کی جنگ کے تناظر میں کہا تھا،’’سب سے مضبوط وہ ہے جو حالات کو دیکھتا ہے، لوگوں کے بارے میں سوچتا ہے اور سفید جھنڈے کی ہمت رکھتا ہے، اور مذاکرات کرتا ہے۔‘‘ پوپ نے یہ بیانات روس اور یوکرین کی اُس جنگ کے حوالے سے دیے جو اب اپنے تیسرے سال میں ہے۔
Published: undefined
پوپ نے یہ بیانات سوئس براڈکاسٹر آر ایس آئی کے ساتھ انٹرویو میں دیے تھے جو آئندہ ہفتے نشر ہونے والا ہے۔ دریں اثناء خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس انٹرویو کے ایک حصے کو تحریری شکل میں جاری کیا ۔ اس میں پوپ کے مذکورہ بیانات پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ خاص طور پر جرمن چانسلر اور جرمنی کی وزیر خارجہ نے پوپ فرانسس کے بیانات سے اتفاق نہ کرنے کا کھلا اظہار کیا ہے۔
Published: undefined
روایتی طور پر سفید پرچم اٹھانے سے مراد میدان جنگ میں ہتھیار ڈالنے کی علامت ہوتی ہے۔ پوپ کے بیانات پر نکتہ چینی کے بعد ویٹیکن کے ایک ترجمان نے کہا کہ پوپ فرانسس مذاکرات کے ذریعے لڑائی ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں ’’سر نگوں کرنے کی‘‘ نہیں۔
Published: undefined
جرمن حکومت کے ایک ترجمان اشٹیفن ہیبے اشٹرائٹ نے کہا کہ چانسلر اولاف شولس پوپ کے بیانات سے ’’اتفاق نہیں کرتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’سچائی یہ ہے کہ یوکرین ایک جارح کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔‘‘ جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم پہلے بھی اس پر بات کر چکے ہیں اور یہ بھی بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ہے کہ ایسی جارحانہ جنگ کے خلاف اپنا دفاع کیا جائے، جس سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ ہم اور بہت سے دوسرے ممالک کے ساتھ اس معاملے میں یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
اُدھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے بھی جنگ سے متعلق پوپ فرانسس کے تبصرے پر تنقید کی اور جرمن ميڈیا ادارے اے آر ڈی کے ساتھ ایک ٹاک شو کے دوران انہوں نے پوپ کے تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو یہ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘ ان کا کہنا تھا،’’میرے خیال میں کچھ چیزیں آپ صرف اسی صورت میں سمجھ سکتے ہیں، جب آپ انہیں خود دیکھیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کییف اور اس کے اتحادیوں نے ’’اس وقت اپنی طاقت نہیں دکھائی تو امن نہیں ہو گا۔‘‘
Published: undefined
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ ایسے مذاکرات جو یوکرین کی خود مختاری اور اس کی آزادی کے ضامن ہوں، اُس وقت ہی ہو سکیں گے جب پوٹن کو یہ احساس ہو گا کہ وہ میدان جنگ میں جیت نہیں سکتے۔ انہوں نے برسلز میں نیٹو ہیڈ کوارٹر میں خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ہم مذاکرات کے ذریعے پرامن اور دیرپا حل چاہتے ہیں، تو وہاں تک پہنچنے کا طریقہ یوکرین کو فوجی مدد فراہم کرنا ہی ہے۔‘‘
Published: undefined
ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی الجال سفید جھنڈے کے بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے، تو انہوں نے کہا، ’’یہ یوکرائنیوں کے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ یوکرینی لوگوں کے لیے ایک المیہ ہو گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ ہم سب کے لیے بھی خطرناک ہو گا۔ کیونکہ اس صورت میں ماسکو یہ سبق سیکھے گا کہ جب وہ فوجی طاقت کا استعمال کرتا ہے، ہزاروں لوگوں کو مارتا ہے اور جب وہ کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے، تو وہ اپنا ہدف حاصل کر لیتا ہے۔‘‘
Published: undefined
ادھر پوپ فرانسس کے بیانات کے بعد یوکرین نے ویٹیکن کے ایلچی کو طلب کیا اور وزارت خارجہ نے کہا کہ کییف کو ان کے تبصروں سے ’’مایوسی‘‘ ہوئی ہے۔ یوکرینی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا،’’کیتھولک مسیحییوں کے پیشوا سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عالمی برادری کو یہ اشارہ کریں کہ وہ فوری طور پر ان فورسز میں شامل ہو، جو برائی پر اچھائی کی فتح کو یقینی بنا سکے۔ اس کے ساتھ ہی حملہ آور سے اپیل کی جائے، نہ کہ اس سے جو اس کا شکار ہو۔‘‘
Published: undefined
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ماسکو یوکرین جنگ سے متعلق پوپ فرانسس کے تبصرے کو مذاکرات کی درخواست کے طور پر دیکھتا ہے۔ پیسکوف نے کہا کہ روسی رہنما ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے اور یہی ’’ترجیحی راستہ بھی ہے۔‘‘ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا،’’یہ بات کافی قابل فہم ہے کہ انہوں (پوپ) نے مذاکرات کے حق میں بات کی ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک امن مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ’’بدقسمتی سے، پوپ کے بیانات اور ہماری جماعت سمیت دیگر حلقوں کے ایسے متعدد بیانات کو حال ہی میں بہت ہی سختی سے مسترد کیا گیا ہے۔‘‘ پیسکوف نے کہا کہ روس کو دفاعی ’’حکمت عملی میں شکست ‘‘ سے دو چار کرنے کی مغربی ممالک کی اُمیدیں ’’سب سے گہری غلط فہمی‘‘ تھی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’بنیادی طور پر میدان جنگ میں ہونے والے واقعات بھی اس کا واضح ثبوت ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز