حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ قانون سازی کے باوجود خواتین کے استحصال میں مزید اضافہ ہوا ہے اور انہیں روزانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ممکنہ پابندی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ قانون سیکس ورکرزکو تحفظ فراہم کرتا ہے۔جرمنی میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت دیے جانے کے دو دہائیوں بعد اس پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کے بارے میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس سلسلے میں حزب اختلاف سے رکھنے والےقدامت پسند سیاست دان حکومت پر نئے سرے سے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
Published: undefined
آج جمعہ کو وفاقی جرمن پارلیمان یا بنڈسٹاگ کو پیش کی گئی ایک تجویز میں اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کرسچیئن سوشل یونین (سی ایس یو)نے دلیل دی ہے کہ 2002 میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کے بعد سے اس پیشے سے منسلک خواتین کی بہت بڑی تعداد کے حالات میں بہتری لانے کے مقصد تک پہنچنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ سابق چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کا کہنا ہے کہ اس ریگولیشن کی وجہ سے خواتین کے استحصال میں مزید اضافہ ہوا ہے، جنہیں روزانہ دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Published: undefined
امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ قانون سازی کی آڑ میں جرائم پیشہ گروہ خواتین کو قحبہ خانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اسمگل کر رہے ہیں۔ قدامت پسند چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ قحبہ خانوں پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ سیکس خریدنے والے لوگوں کو سزا دے کر اپنا طریقہ بدلے۔
Published: undefined
چانسلر اولاف شولس بھی اس اقدام کی حمایت کرتے نظر آئے، "مجھے نہیں لگتا کہ مردوں کے لیے خواتین کو خریدنا قابل قبول ہے۔اس سوشل ڈیموکریٹ رہنما نے مزید کہا، "اسی لیے یہ درست ہے کہ قانون ساز اس بات پرغور کر رہے ہیں کہ کس طرح بہترین طریقے سے جسم فروشی کو روکا جائے۔"
Published: undefined
لیکن شہوت انگیز اور جنسی خدمات سے متعلق پروفیشنل ایسوسی ایشن BesD کا کہنا ہے کہ اس نے چانسلر کے اس بیان کو "انتہائی تشویشناک" پایا ہے۔ اس تنظیم نے چانسلر شولس کو "کوٹھے پر آکر بات کرنے" کی دعوت دی۔ جسم فروشی کی قانونی حیثیت کے حامیوں کا استدلال ہے کہ ایک ریگولیٹڈ انڈسٹری جنسی کارکنوں کو بہتر طور پرتحفظ فراہم کرتی ہے، جہاں ان پر خود کو رجسٹر کرنے، صحت کی لازمی جانچ کرانے اور کنڈوم کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
جز وقتی طور پر جنسی خدمات سر انجام دینے والے کیون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنسی کام پر پابندی صرف بند دروازوں کے پیچھے مزید تشدد کا باعث بنے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے، "ہمیں جسم فروشی مجبور کرنے والے مردوں اور اسمگلنگ کرنے والی خواتین کو زیادہ سخت سزائیں دینی چاہیے۔"
Published: undefined
Callboyz.netکے لیے کام کرنے والے کیون نے اپنا پورا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک رات کے لیے 1,500 یورو تک وصول کرتے ہیں۔ کیون کے گاہکوں میں سے ایک 57 سالہ خاتون برجٹ بھی قانونی جسم فروشی کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "یہ مجھے یقین دلاتا ہے کہ میرے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی ملاپ کے دوران جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں لاحق ہوں گی۔"
Published: undefined
جرمن وفاقی ادارہ شماریات Destatis کے مطابق جرمنی میں اس وقت لگ بھگ 28,280 رجسٹرڈ جنسی کارکن ہیں۔ تاہم سی ڈی یو اور سی ایس یو کے اتحاد کے فیملی اور خواتین کے امور سے منسلک ڈورتھی بیئر کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والی طوائفوں کی اصل تعداد 250,000 بتاتی ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ ڈورتھی کا کہنا ہے کہ ریگولیشن نے جنسی استحصال کو روکنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ بیئر نے حال ہی میں اپنے ملک کو "یورپ کے کوٹھے" کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا، "جرمنی بدقسمتی سے جنسی استحصال کا گڑھ بن گیا ہے۔"
Published: undefined
جن سیکس ورکرز نے قانون سازی کے باوجود حالات میں بہتری نہیں دیکھی، ان میں 48 سالہ بلغاریہ جانا بھی شامل ہیں، انہوں نے اپنا اصل نام ظاہر نہ بتایا کہ کس طرح اس نے ایک شخص کو بس کی قیمت (110 یورو) ادا کرنے کے لیے خود کو بیچ دیا، جس نے ان کو 1999 میں جرمنی پہنچنے میں مدد دی تھی۔
Published: undefined
کئی دہائیوں بعد وہ اب بھی سڑک پر سوتی ہے اور عوامی بیت الخلاء یا سیکس شاپس میں گاہکوں سے ملاقات کرتی ہے ۔ انہیں ایک سیشن کے بدلے 30 یورو ملتے ہیں۔ اپنی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جانا نے نو سال تک میتھمفیٹامائن (کرسٹل میتھ) کا استعمال بھی کیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین ماہ قبل منشیات کا استعمال ترک کر دیا۔ جنسی استحصال کی شکار خواتین کی مدد کے لیے برلن میں قائم شدہ تنظیم نیوسٹارٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین گیرہارڈ شوئن بورن نے کہا کہ یہ "ایک کلاسک کیس" ہے، جس کا مقصد طوائفوں کو پیشہ چھوڑنے میں مدد کرنا ہے۔
Published: undefined
شوئن بورن نے کہا، "ہم ان کی روزگار ایجنسی کے ساتھ اندراج کرنے، ڈاکٹر تلاش کرنے، رہائش اور ممکنہ طور پر نئی ملازمت میں مدد کرتے ہیں۔" ہر سال تقریباً 3,500 خواتین سنٹر کا دورہ کرتی ہیں، جو ہر روز چند گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ شوئن بورن کے مطابق جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ ان کے خیال میں جسم فروشی کو غیر قانونی ہونا چاہیے لیکن سزا یا جرمانے طوائفوں کو نہیں بلکہ ان کے گاہکوں کو ہونے چاہیے۔ طوائفوں کو یہ پیشہ چھوڑنے کے لیے مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز