فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ سے متعلق جرمنی اور فرانس کے مابین اختلاف رائے ’’طریقے پر ہے نہ کہ پالیسی پر‘‘ اور اس جنگ کے بارے میں پیرس اور برلن کی سوچیں باہم متصادم نہیں ہیں۔پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے آج اتوار 17 مارچ کو اخبار 'لپاریسیئاں‘ (Le Parisien) میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روس یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ کییف کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہوا اور روسی صدر پوتن 'خوف پھیلانے کی سوچ‘ پر عمل پیرا ہیں۔
Published: undefined
فرانسیسی صدر ماکروں نے اپنے آج شائع ہونے والے اخباری انٹرویو میں یہ باتیں اس پس منظر میں کیں کہ جمعہ 15 مارچ کو جرمنی میں وائیمار کے شہر میں ماکروں، جرمن چانسلر شولس اور پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کی ایک مشترکہ ملاقات ہوئی تھی۔
Published: undefined
اس ملاقات سے قریب تین ہفتے قبل فرانسیسی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یورپی یونین کی طرف سے یوکرین کی روس کے ساتھ جنگ میں کییف کی مدد کرتے ہوئے اس امر کو عوامی سطح پر خارج از امکان قرار نہیں دینا چاہیے کہ مستقبل میں یوکرین میں زمینی فوجی دستے بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ فرانسیسی سربراہ مملکت کے بقول روسی یوکرینی جنگ میں جرمنی اور فرانس مل کر یورپی یونین کی سطح پر یوکرین کی جو مدد کر رہے ہیں، اس میں بھی برلن اور پیرس میں قومی حکومتوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ صدر ایمانوئل ماکروں نے تاہم کہا کہ یوکرینی جنگ سے متعلق عملی فیصلوں میں جرمنی اور فرانس کے مابین اختلاف،''پالیسی کا اختلاف نہیں بلکہ ایک ہی پالیسی کو مختلف طریقوں سے عملی شکل دینے سے متعلق ہے۔‘‘
Published: undefined
ایمانوئل ماکروں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ خود ان کا اور جرمن چانسلر اولاف شولس کا انداز سیاست مختلف ہے اور اس وجہ سے وہ نہیں سمجھتے کہ یہ دونوں رہنما یا ان کے ممالک آپس میں کسی تنازعے کا شکار ہیں۔ صدر ماکروں نے پیرس سے شائع ہونے والے اخبار 'لپاریسیئاں‘ کو بتایا، ''میرے اور جرمن چانسلر شولس کے مابین کبھی کوئی مشکل یا مسائل نہیں رہے اور ہمارے درمیان مقاصد اور موجودہ صورت حال پر ردعمل کے حوالے سے بھی بہت کچھ مشترک ہے۔‘‘ فرانسیسی صدر کے الفاظ میں، ''کچھ فرق صرف اس حوالے سے ہے کہ فیصلوں کو عملی شکل کیسے دی جائے اور اس کا سبب بھی دونوں ممالک میں اسٹریٹیجک نوعیت کے فیصلوں کے وہ قومی کلچر ہیں، جو جرمنی اور فرانس میں بہرحال ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔‘‘
Published: undefined
صدر ماکروں کے اس موقف سے جرمن چانسلر شولس نے اس کے بعد کے کئی دنوں میں متعدد مرتبہ اختلاف کرتے ہوئے اسے مسترد بھی کر دیا تھا۔ ساتھ ہی چانسلر اولاف شولس نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی اپنے فوجی یوکرین نہیں بھیجے گا۔ پھر فرانسیسی صدر نے اولاف شولس کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی تھی، جو برلن میں ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد بھی فرانسیسی صدر نے زور دے کر کہا تھا کہ یوکرین میں زمینی فوجی دستے بھیجنا ممکنہ طور پر ضروری ہو سکتا ہے۔ تاہم جرمن چانسلر شولس ابھی تک روسی یوکرینی جنگ سے متعلق صدر ماکروں کے اس موقف سے مختلف سوچ کے حامل ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined