اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے متعلق اپنی نوعیت کی اولین عالمی قرارداد منظور کر لی ہے۔ امریکہ کی طرف سے قریب سوا سو ممالک کے تعاون سے پیش کردہ اس قرارداد کو ’پہلا اہم قدم‘ قرار دیا جا رہا ہے۔نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس عالمی قرارداد کا تجویز کنندہ ملک تو امریکہ تھا مگر اسے 'شریک معاون ممالک‘ کے طور پر چین سمیت اس عالمی ادارے کی رکن 123 ریاستوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
Published: undefined
عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی کی طرف سے متفقہ رائے سے منظور کی جانے والی اس قرارداد کو، جو مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے متعلق اپنی نوعیت کی اولین عالمی قرارداد ہے، مستقبل کے لیے ''پہلا اہم قدم‘‘ کہا جا رہا ہے۔ مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی رات منظور کردہ اس قرارداد کا مقصد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی ٹیکنالوجی ''محفوظ، سلامتی کی وجہ بننے والی اور قابل اعتماد‘‘ ثابت ہو۔
Published: undefined
اس قرارداد کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ میں امریکہ کی خاتون سفیر لِنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے کہا، ''آج عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی کے رکن تمام 193 ممالک نے بیک آواز ایک فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مل کر یہ عزم کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کے کنٹرول میں رہے گی، بجائے اس کے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانوں پر حکومت کرنے لگے۔‘‘ امریکی سفیر کے الفاظ میں، ''یہ ابھی محض پہلا قدم ہے۔ میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن یہ ایک اہم اولین قدم ہے۔‘‘
Published: undefined
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے لیے اس قرارداد پر عمل کرنا لازمی تو نہیں ہو گا لیکن اس مسودے پر رائے دہی کے دوران کوئی ایک بھی رکن ریاست اس کے خلاف نہیں تھی اور یوں عالمی برادری نے بین الاقوامی سیاست میں موجودہ کشیدہ صورت حال کے باوجود بہت ہی کم نظر آنے والے قطعی اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا۔
Published: undefined
یو این جنرل اسمبلی نے یہ قرارداد ایک ایسے وقت پر منظور کی ہے، جب زیادہ سے زیادہ ممالک کی حکومتیں ان کوششوں میں ہیں کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی مصنوعی ذہانت کے بارے میں تیز رفتار حکمت عملی طے کرتے اور ضابطوں کا تعین کرتے ہوئے ان خدشات کا ازالہ کیا جائے کہ اے آئی عالمی سطح پر دھوکہ دہی، روزگار کے مواقع کے ضائع ہو جانے حتیٰ کہ جمہوری عوامل تک میں خلل کا باعث بن سکتی ہے۔
Published: undefined
اس قرارداد کے مسودے کے مطابق، ''اے آئی سسٹمز کی نامناسب یا بدنیتی پر مبنی ڈیزائننگ، تیاری اور استعمال سے ایسے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، جو مجموعی سلامتی، انسانوں کے بنیادی حقوق اور کلیدی آزادیوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘ گزشتہ برس نومبر میں امریکہ، برطانیہ اور ایک درجن سے زائد دیگر ممالک نے ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کر دیے تھے، جس کا مقصد یہ تھا کہ مصنوعی ذہانت کو ڈیزائن کی حد تک اتنا محفوظ کس طرح رکھا جائے کہ اس کا بدنیتی یا مجرمانہ سوچ پر مبنی استعمال کیا ہی نہ جا سکے۔
Published: undefined
دو درجن سے زائد ممالک پر مشتمل یورپی یونین نے رواں ماہ کی 13 تاریخ کو اے آئی سے متعلق ایسے جامع قوانین کی منظوری دے دی تھی، جن کا نفاذ ممکنہ طور پر اسی سال مئی یا جون سے ہو جائے گا۔ یہ یورپی ضابطے بھی مصنوعی ذہانت کے محفوظ، تعمیری اور سود مند استعمال کو یقنی بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
Published: undefined
اسی طرح اب امریکہ اور چین جیسے ممالک بھی اپنے ہاں قومی سطح پر اے آئی گائیڈ لائنز کا تعین کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ دیگر ریاستیں، جن میں بھارت اور جاپان نمایاں ہیں، پہلے ہی آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور اس کے استعمال سے متعلق اپنے ہاں قابل ذکر ضابطے وضع کر چکی ہیں۔ ان جملہ کوششوں میں تاہم ایسی کاوشیں بہت کم ہیں، جن میں اے آئی کے استعمال سے متعلق قانونی احتساب اور ریگولیٹری اختیارات کا بھی تعین کیا گیا ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز