DW

پاکستانی انتخابات اور جمہوریت پر امریکی کانگریس میں سماعت

امریکی ایوان نمائندگان میں اس سماعت کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب پاکستان میں بھی کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آٹھ فروری کو ہوئے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

 

امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کے حالیہ انتخابات اور جمہوریت کے حوالے سے سماعت کرنے والی ہے۔ کانگریس کے دو درجن سے زائد ارکان ان انتخابات کی شفافیت سے متعلق پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور وسطی ایشیا سے متعلق اپنی ذیلی کمیٹی کو پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سماعت کرنے کا کام سونپا ہے اور یہ سماعت 20 مارچ کو ہو گی۔

Published: undefined

امریکی ایوان نمائندگان میں اس سماعت کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب پاکستان میں بھی کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آٹھ فروری کو ہوئے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔اس سے قبل امریکی کانگریس کے دو درجن سے بھی زیادہ ارکان نے ان عام انتخابات کی شفافیت سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ جب تک دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، اس وقت تک شہباز شریف کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔

Published: undefined

امریکی کانگریس میں کن امور پر سماعت ہو گی؟

اس سماعت کا عنوان ہے، ’’انتخابات کے بعد پاکستان: پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور امریکہ پاکستان تعلقات کا جائزہ۔‘‘ یعنی اس سماعت میں عام انتخابات کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت پر بھی غور کیا جائے گا۔ اس سماعت میں حکمراں ڈیموکریٹک جماعت اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں کے قانون سازوں کی نمایاں موجودگی کی توقع ہے۔

Published: undefined

جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لو اس سماعت میں پیش ہونے والے واحد گواہ ہوں گے۔ سائفر تنازعے میں ڈونلڈ لو کی مبینہ شمولیت ان کی موجودگی کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ لو نے مارچ سن 2022 میں واشنگٹن میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی دھمکی دی تھی۔

Published: undefined

پاکستان اور امریکہ دونوں ہی ملکوں کے صحافی امریکی محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ کے دوران اکثر یہ مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں،، تاہم امریکی حکام ان الزامات کو مسلسل بے بنیاد قرار دیتے رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ڈونلڈ لو کو اس سماعت میں شامل کر کے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس تنازعے پر ان کے موقف کی وضاحت کے بعد یہ مسئلہ حتمی طور پر حل ہو سکتا ہے۔ ادھر امریکہ میں سرگرم پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے اس سماعت سے متعلق ایک بیان جاری کر کے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکیوں کی ’’مسلسل کوششوں‘‘ کی وجہ سے ہی اس امریکی ایوان میں سماعت کا یہ فیصلہ ہوا ہے۔

Published: undefined

کانگریس میں پاکستان سے متعلق قرارداد

بیس مارچ کو سماعت کے دن ہی ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی ایک قرارداد پر بھی غور کر رہی ہے، جس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کا اظہار کیے جانے کی توقع ہے۔ اس قرارداد میں امریکی صدر اور وزیر خارجہ سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ ’’جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں۔

Published: undefined

اس میں اسلام آباد پر بھی زور دیا جائے گا کہ وہ جمہوری اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت، آزادی اجتماع اور آزادی اظہار کی بنیادی شہری ضمانتوں کا احترام کرے۔ اطلاعات کے مطابق اس قرارداد میں پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی جائے گی۔ یہ پاکستانی عوام کو ہراساں کرنے، ڈرانے، غیر قانونی حراست، یا ان کے انسانی اور سیاسی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی سمیت جمہوریت میں شرکت کو دبانے کی کوششوں کی بھی مذمت کرتی ہے۔

Published: undefined

امریکی قانون سازوں کی پاکستانی انتخابات پر تشویش

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل ہی امریکی کانگریس کے اکتیس اراکین نے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے نام اس مکتوب پر دستخط کیے تھے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے، جب تک انتخابی دھاندلی اور اس عمل میں مداخلت کی تحقیقات مکمل نہیں کر لی جاتیں۔

Published: undefined

جن قانون سازوں نے مشترکہ خط پر دستخط کیے تھے، ان میں سے بیشتر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ انہوں نے پاکستان کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پولنگ سے قبل اور ووٹنگ کے بعد ہونے والی مبینہ دھاندلی اور غیر شفافیت پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔ ان امریکی قانون سازوں نے انتخابات کے دن ہونے والی مبینہ خلاف ورزیوں اور رکاوٹوں کے شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے نئی پاکستانی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

Published: undefined

قانون سازوں نے دلیل دی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کا تحفظ اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ انتخابی نتائج حقیقی طور پر اشرافیہ اور فوج کے بجائے عوام کے مفادات کی عکاسی کرتے ہوں۔ اور ’’یہی امریکی مفادات سے بھی ہم آہنگ ہے۔‘‘ اس مکتوب میں ان ارکان نے لکھا تھا، ’’پاکستانی حکام پر زور دیا جائے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو رہا کریں، جو محض سیاسی بیان بازی یا سرگرمی میں ملوث ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہو۔ پاکستان میں محکمہ خارجہ کے اہلکاروں کو ایسے معاملات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے کہا جائے اور ان سے ایسے افراد کی رہائی کی وکالت کی جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined