اگر پینتیس سالہ سابق وزیر خارجہ بلاول وزیر اعظم بنے تو وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے بعد ملک کے کم عمر ترین وزیر اعظم ہوں گے۔ پی پی پی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف عوام کے بجائے ’کسی اور‘ پر بھروسہ کر رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سربراہ اور نوجوان سیاست دان بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے اپنی توجہ نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے پرجوش منصوبوں پر مرتکز کیے ہوئے ہیں۔ اگر بلاول کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹوکے بعد پاکستان کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بن جائیں گے۔
Published: undefined
آٹھ فروری کے عام انتخابات سے قبل 35 سالہ سابق وزیر خارجہ نے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے لیے نئے خیالات اور قیادت پر زور دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے آبائی حلقے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''آج کیے گئے فیصلوں کے اثرات پاکستان کے نوجوانوں کو بھگتنا پڑیں گے۔ میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ انہیں یہ فیصلے کرنے کی اجازت دی جائے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کی 241 ملین آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ سن 2000ء سے ملک کے وزرائے اعظم بننے والے سیاست دان اوسطاً 61 سال سے زیادہ عمر کے رہے ہیں۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ بھٹو زرداری کی عمر تین بار وزیر اعظم رہنے والے 74 سالہ نواز شریف اور 2018ء کے انتخابات جیت کر وزیراعظم منتخب ہونے والے 71 سالہ عمران خان کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔
Published: undefined
بلاول بھٹو نے ملک کی اقتصادی صورتحال سے نالاں ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان کے پاس مالیاتی رکاوٹوں کے باوجود مفت بجلی فراہم کرنے اور سماجی تحفظ کے پروگراموں کو فروغ دینے کا ٹھوس منصوبہ ہے۔
Published: undefined
انہوں نے اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''ہماری تجویز ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے ترقیاتی ماڈل کی مکمل طور پر تنظیم نو کی جائے۔‘‘ بلاول کے اس دعوے کے پس منظر میں 2022ء میں پاکستان میں آنے والےتباہ کن سیلابوں کے بعد بین الاقوامی برادری کی طرف سے امداد کی مد میں دس ارب ڈالر سے زائد کی فراہمی کے وعدے کار فرما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے منصوبوں میں استعمال کی جانی چاہیے۔
Published: undefined
پاکستان کے طاقت ور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے بلاول گزشتہ ایک ماہ سے اپنی جماعت کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور اس دوران وہ تیس سے زائد شہروں میں جا چکے ہیں۔ جبکہ ان کی حریف متعدد جماعتوں نے گزشتہ ہفتے سے اپنی انتخابی مہمات کا آغاز کیا ہے۔
Published: undefined
تاہم ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی وجہ سے بعض حلقوں میں اپنی جگہ کھو دی ہے۔ البتہ نوجوانوں میں مقبول رہنما عمران خان کے جیل میں ہونے کے سبب بلاول نے خود کو ان کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے حال ہی میں خان کے حامیوں سے کہا کہ وہ انہیں ووٹ دیں۔
Published: undefined
2013ءکے انتخابات میں پی پی پی مرکز میں ن لیگ کے بعد دوسری بڑی جماعت تھی اور اس نے قومی اسمبلی کی 342 میں سے 42 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ 2018ء کے انتخابات میں پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں سے پیچھے رہی تھی۔
Published: undefined
بلاول بھٹو نے آئندہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ''آپ جانتے ہیں، آئندہ انتخابات میں شاید ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ سیاست دان آزاد حثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ان آزاد امیدواروں میں سے زیادہ تر کا تعلق عمران خان کی پارٹی سے ہے، جو اس ماہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد اپنی جماعت کا پلیٹ فارم اور 'بلے‘ کا انتخابی نشان کھو چکے ہیں۔ لیکن پاکستان کے امور پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار اور امریکہ میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ پی پی پی کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے اور ایسے میں بلاول بھٹو کے لیے وزیر اعظم کا کردار نبھانا ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
کوگل مین نے کہا، '' کچھ لوگ شاید بلاول کو وزارت عظمیٰ کے لیے ایک ڈارک ہارس امیدوارکے طور پردیکھتے ہوں کیونکہ بظاہر انہیں فوج کی حمایت حاصل رہی ہے اور وہ وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔‘‘ کوگل مین نے مزید کہا، "لیکن میں ابھی انہیں وزیر اعظم کے طور پر نہیں دیکھ رہا ہوں۔
Published: undefined
وزیر اعظم کا انتخاب ممکنہ طور پر مخلوط حکومت کی قیادت کرے گی اور بلاول کابینہ کی سطح پر عہدہ لے سکتے ہیں لیکن ممکنہ طور پر سب سے اوپر کی جگہ ان کی پہنچ سے دور ہو سکتی ہے۔ اس کے بجائے پاکستانی فوج نواز شریف، جیسے تجربہ کار لیڈروں کو ترجیح دے سکتی ہے۔‘‘ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملکی طاقتور فوج عمران خان کے ساتھ تعلقات میں دراڑوں کے بعد نواز شریف کی پشت پناہی کر رہی ہے، جس کے سبب انہیں آئندہ انتخابات میں برتری حاصل ہے۔
Published: undefined
فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے۔ جب بلاول بھٹو سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فوج نے نواز شریف کی حمایت کی ہے؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا، ''وہ یقینی طور پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے پاکستانی عوام کے علاوہ کسی اور چیز پر بھروسہ کر رہے ہیں۔‘‘ بلاول نے مزید کہا کہ ماضی کے انتخابات کی طرح 2024ء کے انتخابات کی شفافیت سے متعلق بھی سوالات منڈلا رہے ہیں تاہم وہ اور ان کی جماعت توقعات کے بر عکس کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined