گیتانجلی شری کے ساتھ سبز لباس زیب تن کیے ڈیزی راک ویل بھی موجود تھیں، جنہوں نے ریت سمادھی کو ہندی سے انگریزی میں 'ٹومب آف سینڈز‘ کے نام سے منتقل کر کے یہ سنگ میل عبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
Published: undefined
جیوری کے سربراہ فرینک وائن نے کہا کہ ٹومب آف سینڈز کو 'بھرپور بحث‘ کے بعد 'کثرت رائے‘ سے اس سال کے انٹرنیشنل بکر پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سے پہلے انہوں نے اس ناول جیسا کچھ نہیں پڑھا تھا۔
Published: undefined
لندن میں یہ اعزاز وصول کرتے ہوئے گیتانجلی شری نے کہا، ''میں نے کبھی بُکر پرائز کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا، میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا کہ میں (یہ اعزاز حاصل) کر سکتی ہوں۔ کیسا عظیم اعتراف ہے یہ!‘ انہوں نے اپنی حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزت افزائی پر جیوری کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔
Published: undefined
جون 2004 میں فکشن سے منسوب بہت اہم ادبی ایوارڈ 'مین بکر پرائز‘ کی طرف سے اس کیٹیگری کا اعلان کیا گیا تھا، جو 2005 سے 2015 تک ہر دوسرے سال کسی بھی ایسے مصنف یا مصنفہ کو دیا جاتا رہا، جس کی تصانیف انگلش یا انگلش ترجمے کی صورت میں باآسانی دستیاب ہوں۔ چونکہ مین بکر پرائز محض دولت مشترکہ کے ممالک، آئرلینڈ اور زمبابوے تک محدود تھا، اس لیے اس انٹرنیشنل ایوارڈ سے دیگر بین الاقوامی ادیبوں کے لیے جیسے ایک نئی کھڑکی کھل گئی تھی۔مین بُکر پرائز : برطانوی مصنفہ ہلیری مینٹل کے نام یہ ایوارڈ دیتے وقت مصنف یا مصنفہ کی 'مسلسل تخلیقی صلاحیت، ترقی اور عالمی سطح پر افسانوی ادب میں مجموعی شراکت‘ مدنظر رکھی جاتی تھیں۔
Published: undefined
2016ء میں انٹرنیشنل بکر پرائز کے ضوابط میں چند بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ یہ ایوارڈ سالانہ اور مجموعی کام کے بجائے ایک کتاب تک محدود کر دیا گیا۔ اب ضروری تھا کہ کتاب کی اصل زبان انگریزی نہ ہو، بلکہ یہ کسی بھی دوسری زبان سے انگریزی میں منتقل شدہ ہو، جس کی اشاعت برطانیہ یا آئرلینڈ میں ہوئی ہو۔
Published: undefined
2016ء سے جنوبی کوریا، اسرائیل، پولینڈ، عمان، نیدرلینڈز اور فرانس کے مصنفین بالترتیب یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔ اب اسی فہرست میں گیتانجلی شری نے بھارت کا نام روشن کیا ہے، جو پورے جنوبی ایشیا کے لیے فخر کی بات ہے۔
Published: undefined
سات سے آٹھ سال تک کی طویل محنت اور مسلسل لگن کے بعد یہ ناول ہندی میں پہلی بار 2018 میں سامنے آیا۔ ادبی ہنگامی خیزی سے نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی گیتانجلی شری تب اپنی مترجمہ ڈیزی راک ویل کے نام تک سے واقف نہ تھیں۔ جب ڈیزی نے ابتدائی طور پر چند صفحات ترجمہ کر کے بھیجے، تو انہیں بہت اچھا لگا کہ اس ترجمے میں ان کی تصنیف کی 'روح‘ برقرار تھی۔
Published: undefined
ناول ایک 80 سالہ عورت کی کہانی ہے، جو اپنے خاوند کی موت کے بعد زندگی سے بیزار نظر آتی ہے۔ اپنے تازہ ترین انٹرویو میں گیتانجلی شری کہتی ہیں، ''ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار بوڑھے افراد موجود ہوتے ہیں، جو بظاہر ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ''ایسے کسی انسان کی بیزاری نے میرے اندر تجسس بیدار کیا کہ آیا یہ بیزاری کسی نئے وابستگی کا پیش خیمہ تو نہیںِ‘‘ بہت سی چیزیں پہلے سے ان کے اندر چل رہی تھیں کہ یہ امیج وہ تحریک ثابت ہوا، جس کے بعد انہوں نے ریت سمادھی لکھا۔
Published: undefined
یہ کہانی برصغیر کی تقسیم سے گزرتے ہوئے انسانی تعلقات، انسان اور کائنات کی مبہم کشمکش اور سماجی سطح پر قابل قبول اور ناقابل قبول رشتوں کی کہانی ہے۔
Published: undefined
پولینڈ کی نوبل انعام یافتہ ادیبہ اولگا ٹوکارچوک، ارجنٹائن کی کلاؤڈیا پینیرو اور جنوبی کوریا کی مصنفہ بورا چنگ کو آخری مرحلے میں پیچھے چھوڑنے والی گیتانجلی شری کا ناول ٹومب آف سینڈز مقامی ثقافت کے مٹتے نقوش کو صفحات میں قید کرنے کی لازوال کوشش ہے جس کے چمک بین الاقوامی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔
Published: undefined
بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ گیتانجلی شری اب تک پانچ ناول اور کئی افسانے تحریر کر چکی ہیں لیکن ادبی منظر نامے پر ان کی بھرپور انٹری 'مائی‘ سے ہوئی۔ یہ ناول ہندوستان کے مٹتے ہوئے مقامی رنگوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک خاموش طبع اور سر جھکا کر جینے والی ایک گھریلو خاتون ہے۔ مائی کے دو بچے سبودھ اور سونینا نئی نسل کا روپ اور روایتی ہندو گھرانے میں بغاوت کی آواز ہیں، جو مائی میں خاندانی بندشوں کے خلاف کوئی شعلہ بیدار نہیں کر سکتیں۔
Published: undefined
معروف ادیب انتظار حسین کو مائی پڑھ کر سیتا جی یاد آئیں۔ وہ مائی کو سیتا جی کی طرح 'ہندو تہذیب کی آدرشی عورت‘ کے طور پر دیکھتے تھے۔
Published: undefined
ان کے بقول 'ہندو تہذیب نے جو نسوانی آدرش کا خواب دیکھا تھا، اس کا جلوہ اسے سیتا جی کی ذات میں نظر آیا۔ سو ہندو تہذیب میں جہاں جہاں عورت اس آدرش سے لگاؤ کھاتی نظر آئے گی، وہاں سیتا جی کی طرف دھیان بھی جائے گا۔‘‘
Published: undefined
گیتانجلی شری کی ایک پہچان بطور نقاد بھی ہے، جس میں ان کی توجہ کا مرکز پریم چند ہیں۔ انہوں نے نہ صرف 'دو دنیاؤں کے درمیان: پریم چند کی فکری سوانح حیات‘ لکھی بلکہ پریم چند کے کام کو صنعتی، اقتصادی اور سماجی تاریخ کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم گیتانجلی شری کا بنیادی میدان فکشن ہی ہے، جس میں انہوں نے تازہ ترین معرکہ سر کیا ہے۔
Published: undefined
آج اردو کی ادبی دنیا بشیر عنوان کی خاص طور پر ممنون نظر آئی کہ انہوں نے اس وقت گیتانجلی شری کو 'مائی‘ کے ترجمے سے اردو قارئین میں متعارف کروایا، جب انہیں انٹرنیشنل بکر پرائز ملنے کا دور دور تک کوئی امکان ہی نہیں تھا۔
Published: undefined
مائی اردو میں کیسے ترجمہ ہوا، یہ بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ دراصل انتظار حسین نے اس ناول کو ہندی میں پڑھا اور ابھی ختم ہی کیا تھا کہ آصف فرخی ان کے پاس آ پہنچے تھے۔ انتظار صاحب کے بقول، ''میں نے ان (آصف فرخی) سے کہا کہ تم ہندی فکشن کے بہت گن گاتے رہتے ہو۔ ذرا یہ ناول پڑھ کر دیکھو۔ اس عزیز نے کمال کیا۔ خاموشی سے اپنے بیگ میں رکھا اور کراچی چلا گیا۔ چند مہینوں کے بعد مجھے اس کی طرف سے ایک مسودہ موصول ہوا۔ یہ ناول کا اردو روپ تھا۔‘‘
Published: undefined
یہ روپ بشیر عنوان نے دیا، جن کے بقول دونوں زبانوں کا بنیادی فرق سنسکرت اور عربی و فارسی تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''سنسکرت آمیز زبان تقریباً پندرہ فیصد کے قریب تھی جسے اردو میں ڈھالتے ہوئے اچھی خاصی محنت کرنا پڑی۔‘‘
Published: undefined
جب ڈی ڈبلیو اردو نے بشیر عنوان سے ریت سمادھی کو ترجمہ کرنے کے حوالے سے بات کی، تو انہوں نے کہا، ''اگر کسی پبلشر نے رابطہ کیا تو میں ضرور دلچسپی لوں گا۔‘ مائی نسبتاً ایک مختصر ناول تھا جبکہ ریت سمادھی 739 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندی سے انگریزی میں منتقل کرنے والی مترجمہ ڈیزی راک ویل کو 50 ہزار پاؤنڈ کی انعامی رقم میں سے نصف ملے گی جبکہ اردو میں یہ کام فی سبیل اللہ کرنا پڑتا ہے۔
Published: undefined
وہ کہتے ہیں، ''ہمارے ہاں مارکیٹ محدود اور پبلشرز کے حالات خراب ہیں۔ اتنے طویل ناول کو نئی زبان میں ڈھالنے کے لیے اچھا خاصا وقت اور انتھک محنت چاہیے۔‘‘ امید ہے کہ بہت جلد کوئی اشاعتی ادارہ یہ تہذیبی ذمہ داری ادا کرے گا۔ گیتانجلی شری کا ہر وہ قاری جس نے مائی پڑھا ہے، وہ ریت سمادھی کو بھی جلد از جلد اردو میں پڑھنے کے لیے بے قرار ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز