Published: undefined
(3)
Published: undefined
(فرانز کافکا کی ایک تمثیل، جرمن سے براہ راست اردو میں)
Published: undefined
ایک فلسفی ہمیشہ اسی جگہ کے ارد گرد گھومتا رہتا تھا جہاں بچے کھیلتے تھے۔ وہ جب کبھی بھی یہ دیکھتا کہ کسی بچے کے پاس لٹو ہے، تو وہ جھاڑیوں کے پیچھے تاک لگا کر بیٹھ جاتا۔ جیسے ہی لٹو گھومنے لگتا، فلسفی دوڑ کر جاتا اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا۔
Published: undefined
وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرتا کہ بچے اسے اپنے کھلونے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ لٹو کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہو جاتا، تو جب تک لٹو گھومتا رہتا، فلسفی بھی خوش رہتا۔ لیکن پھر ایک ہی لمحے میں وہ لٹو کو زمین پر پٹخ دے مارتا اور آگے بڑھ جاتا۔
Published: undefined
اسے یقین تھا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا علم اور شعور، مثلاً گھومتے ہوئے لٹو کا بھی، عمومی آگہی کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے وہ خود کو بڑے مسائل پر غور و فکر میں مصروف نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کرنا محنت اور نتائج کے حوالے سے اسے غیر سود مند لگتا۔
Published: undefined
اسے لگتا تھا کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے چھوٹے پن کا بھی اگر واقعی علم ہو جائے، تو سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو وہ خود کو صرف ایک گھومتے ہوئے لٹو کے ساتھ ہی مصروف رکھتا تھا۔
Published: undefined
یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ جب کوئی لڑکا لٹو کو گھمانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتا، تو اسے امید ہو جاتی کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب لٹو گھومتا تو اپنے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ وہ جیسے جیسے اس کا پیچھا کرتا، اس کی امید شعور میں بدلتی جاتی۔
Published: undefined
لیکن پھر جیسے ہی وہ لکڑی کے اس فضول سے گول ٹکڑے کو ہاتھ میں لیتا تو اس کا جی متلانے لگتا۔ تب بچوں کی وہ چیخ و پکار اور احتجاج بھی، جنہیں وہ تب تک سن نہیں پاتا تھا، اچانک اس کے کانوں کے بہت اندر تک پہنچنے لگتے۔ یہی چیخ و پکار اور احتجاج اس کے وہاں سے فرار کا سبب بنتے، اسی طرح گرتے پڑتے، جیسے کسی لڑکے نے گھمانے کے لیے کوئی لٹو بڑے پھوہڑ انداز میں زمین پر پھینک دیا ہو۔
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined